Maktaba Wahhabi

117 - 531
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی آیات: مولانا امین اصلاحی صاحب نے سورۃ العلق کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ: ’’یہ پوری سورہ بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہے اور اس کی ابتدائی پانچوں آیتوں کا مزاج بھی بعد کی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں ہے اور سورہ کا انداز خطاب اتنا تیز و تند ہے کہ بالکل پہلی ہی سورہ میں یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختیار فرمایا گیا۔‘‘ اصلاحی صاحب نے صرف اتنا ہی لکھا ہے اور دور یا قریب سے کسی راوی پر چاہے وہ صحابی ہو یا تابعی یہ الزام نہیں لگایا ہے کہ اس نے آغاز وحی کی حدیث کے شروع میں یہ پانچ آیتیں اپنی طرف سے بڑھا دی ہیں ایسی بات ان کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے صاحب نے ان کی طرف منسوب کرکے لکھی ہے، ممکن ہے کہ انھوں نے اپنی کسی مجلس میں اپنے شاگردوں یا مستقبل میں ذخیرۂ حدیث سے متعلق اپنے تشکیکی خیالات کے وارث کسی مقرب مرید سے فرمائی ہو، بہرحال اپنی آخری عمر میں انھوں نے حدیث کے شرعی حجت ہونے کو مشکوک بنانے میں خاصا کام کیا ہے اور اپنے پیچھے ایسے ’’مخلص اور سچے‘‘ جاں نشین چھوڑ گئے ہیں جو حدیث کی وہی خدمت کر رہے ہیں جو خدمت پہلے معتزلہ نے کی تھی، پھر اس خدمت کو بحسن و خوبی گولڈ زیہر اور دوسرے یہودی اور عیسائی مستشرقین نے انجام دیا اور ان کے بعد ان کی اس مہم کو احمد امین اور محمود ابوریہ نے آگے بڑھا دیا، پھر یہ آواز مصر سے پاکستان پہنچی جہاں غلام احمد پرویز، عبد الودود، امین احسن اصلاحی اور احمد غامدی نے اس پر لبیک کہا، دوسرے تو چلے گئے، مگر احمد غامدی اور امین اصلاحی کے مکتبۂ فکر سے وابستہ لوگ ’’خدمتِ حدیث‘‘ کے پُر فریب نام سے یہ ’’کار خیر‘‘ انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں ۔ علی گڑھ، ہندوستان سے نکلنے والے ششماہی رسالے کے مولانا احسن اصلاحی نمبر میں مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت حدیث کے زیر عنوان مضمون میں ان کے ایک شاگرد خالد مسعود نے آغاز وحی کی حدیث پر اصلاحی صاحب کے اعتراض کو کچھ تو اپنے الفاظ میں اور کچھ ان کے الفاظ میں ملا جلا کر پیش کیا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے؛ فرماتے ہیں : ’’غارِ حرا میں جبریل امین علیہ السلام کی آمد اول کی حدیث کے بارے میں مولانا کا نقطۂ نظر بالکل الگ ہے وہ سورۂ علق کے انتہائی غضب آلود انداز بیان کی روشنی میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ ایسی سورت ابتدائی مکی دور میں نازل نہیں ہوسکتی تھی، اس کا انداز خطاب ہٹ دھرموں کو جھنجھوڑنے والا ہے اور دعوت کے عروج کے زمانے کے لیے موزوں ہے، سورہ کی ابتدائی پانچ آیتوں کو باقی سورہ سے الگ کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مولانا کے نزدیک جبریل امین علیہ السلام کی یہ آمد وحی پہنچانے کے لیے تھی ہی نہیں ۔ اس کا مقصد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو روحانی طاقت کے ساتھ اتصال کے لیے تیار کرنا اور فرشتہ وحی کے ساتھ تعارف کرانا تھا، فرشتہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنانے کو کہا تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ما أنا بقاری‘‘ یعنی میں کوئی ذی علم آدمی نہیں کہ لوگوں کو پڑھاؤں سناؤں ۔ اس پر فرشتے نے آپ کا سینہ بھینچا، پھر کہا: اپنے رب کے
Flag Counter