Maktaba Wahhabi

118 - 531
نام سے سناؤ، یہ آپ کو منصب رسالت پر فائز کرنے کی اطلاع تھی۔ اس قول میں اشارہ سابق صحیفوں کی اس پیشینگوئی کی طرف بھی تھا کہ جب آخری نبی آئے گا تو اس کے منہ میں خدا کا کلام ہوگا وہ جن باتوں کو خدا کا نام لے کر کہے گا جو شخص ان کو نہ سنے گا تو میں ان کا حساب ان سے لوں گا۔‘‘[1] مولانا کے خیال میں ’’اقرأ باسم ربک‘‘ کے الفاظ موجود پاکر کسی راوی نے سورۂ علق کی پانچ آیتیں پڑھ دیں اور ان کے پہلی وحی ہونے کا تصور قائم ہوگیا۔ (ص: ۲۶۶۔ ۲۶۷) اصلاحی صاحب نے آغاز وحی کی حدیث میں سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے شامل نہ ہونے کا جس وثوق کے ساتھ دعویٰ کیا ہے اس کو ریت کا تودہ ثابت کرنے کے لیے میں چند عنوانات کے تحت اس کا جائزہ لینا چاہتا ہوں : ۱: سورۂ علق کا اسلوب بیان۔ ۲: جبریل علیہ السلام کی پہلی آمد کا مقصد۔ ۳: ما أنا بقاریٔ کا مطلب۔ ۴: قدیم آسمانی صحیفوں سے بے محل استدلال۔ ۵: حدیث کی سند۔ (۱) سورۂ علق کا اسلوب بیان: مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن پاک کے درس و مطالعہ اور غور و تدبر میں گزرا ہے، ان کو یہ احساس بھی تھا کہ فہم قرآن میں ان کو امتیازی اور انفرادی درجہ و مقام حاصل ہے۔ فہم قرآن کے علاوہ وہ عربی ادب کا بھی اچھا اور ستھرا ذوق رکھتے تھے، انھوں نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں جگہ جگہ کلام اللہ کے اعجازی اسلوب بیان اور بلاغی شان کو حسن و خوبی کے ساتھ اجاگر بھی کیا ہے، بایں ہمہ سورۂ علق کے اسلوب بیان کے بارے میں جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’یہ پوری سورہ بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہے۔ اس کی ابتدائی پانچ آیتوں کا مزاج بھی بعد کی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں ہے، سورہ کا انداز خطاب اتنا تیز و تند ہے کہ بالکل پہلی ہی سورہ میں یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختیار فرمایا گیا ہے۔‘‘ یہ عبارت ان کی تفسیر سے ماخوذ ہے، لیکن ان کے شاگرد خالد مسعود نے اپنے مضمون میں اس سورہ کے انداز بیان کے بارے میں ان کا جو قول نقل کیا ہے وہ تفسیر کی عبارت سے قدرے مختلف ہے اور اس سورہ کے پہلی وحی نہ ہونے میں زیادہ صریح ہے، فرماتے ہیں : سورۂ علق اپنے انتہائی غضب آلود انداز بیان کی روشنی میں ابتدائی مکی دور میں نازل نہیں ہوسکتی تھی، اس کا انداز
Flag Counter