Maktaba Wahhabi

122 - 531
پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا رب وہ بے پناہ صاحب جود و بخشش ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو ان چیزوں کا علم بخشا جنھیں وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ یہ حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سارا واقعہ سن کر اپنے اسلوب میں بیان کی ہے، جیسا کہ انداز بیان گواہی دے رہا ہے، اور سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں ، حدیث کے ساتھ اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ ایک ہی واقعہ کا طبعی تسلسل معلوم ہوتی ہیں ۔ جس کا انکار مولانا امین احسن اصلاحی جیسے مفسر قرآن کو زیب نہیں دیتا جو قرآن کی آیتوں اور سورتوں کے درمیان نظم کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور اس نظم کو ثابت کرنے کے لیے بسا اوقات ناقابل قبول تکلّفات سے بھی گریز نہیں کرتے۔ (۳) ما أنا بقاریٔ کا مطلب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام کی طلب پر مسلسل تین بار یہ فرمانا: ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ میں پڑھنا نہیں جانتا، اپنے اندر بڑی حکمتیں رکھتا ہے، اس طرح درحقیقت آپ نے ابتدائے وحی ہی کے موقع پر ان الزامات کا گلا گھونٹ دیا جو بعد میں مستشرقین نے قرآن پر لگائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے صحیفوں کو پڑھ کر ان سے یہ کتاب تصنیف کرڈالی ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ فرما کر گویا آپ نے قرآن کی زبان میں ’’أنا أمی‘‘ میں امی ہوں فرمادیا اور عربی زبان میں ’’أمی‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو۔[1] اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا جانتے تو جبریل علیہ السلام کی طلب: ’’اقرأ‘‘ کے جواب میں فرماتے: ’’ماذا أقرأ‘‘ کیا پڑھوں ؟ اس کے برعکس آپ نے ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ فرما کر صفت قراء ت سے اپنے کو غیر موصوف ہونے کا قطعی اعلان فرمادیا اور مسلسل تین بار یہی جواب دے کر اپنی ’’امیت‘‘ کی تاکید فرمادی۔ اصلاحی صاحب نے آغاز وحی کی حدیث میں سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کی عدم شمولیت کے دعوی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ کا ایسا بچکانہ ترجمہ کرڈالا جو ان کی عربی دانی کی شہرت پر ایک بدنما داغ ہے، فرماتے ہیں : ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ یعنی میں کوئی ذی علم آدمی نہیں کہ لوگوں کو پڑھاؤں سناؤں ۔‘‘ (۴) قدیم آسمانی صحیفوں سے بے محل استدلال: اصلاحی صاحب نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ جبریل علیہ السلام کی آمد کی اپنی خود ساختہ توجیہہ: یہ آپ کو منصب رسالت پر فائز کرنے کی اطلاع تھی‘‘ کو درست ثابت کرنے کے لیے قدیم آسمانی صحیفوں سے بے محل استدلال سے بھی باز نہ آئے اور یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ ’’اس قول میں اشارہ سابق صحیفوں کی اس پیشینگوئی کی طرف بھی تھا کہ جب آخری نبی آئے
Flag Counter