Maktaba Wahhabi

156 - 531
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ ان کو خوب اچھی طرح قتل کر دیا جائے یا ان کو بری طرح سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں بری طرح کاٹ دئیے جائیں یا انہیں زمین بدر کر دیا جائے یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، مگر جو لوگ تمہارے ان پر قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں تو جان لو کہ درحقیقت اللہ حد درجہ معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔‘‘ چوتھی حدیث:… خطبہ حجۃ الوداع۔ امین اصلاحی راویان حدیث کے بارے میں اپنے مذموم نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : راوی حضرات اپنے اپنے ذوق کے مطابق واقعہ کے کسی حصہ کو روایت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض لازمی اور ضروری حصے چھوٹ جاتے ہیں ، مثال کے طور پر خطبہ حجۃ الوداع میں اسلام کا نہایت جامع تصور دیا گیا ہے، لیکن کسی روایت میں خطبہ کا ایک حصہ نقل ہوا ہے، تو دوسری میں دوسرا اور کسی میں تیسرا، ایک ہی راوی کی مختلف اوقات کی روایتوں میں تکمیل، تقلیل، اطناب اور ایجاز ہوتا رہتا ہے، لہٰذا کسی نا تمام روایت کی تاویل اس قسم کی دوسری روایات کے ساتھ ملا کر کرنی ہو گی اس طرح جو مضمون متعین ہو گا وہ اصل ہو گا۔ اس عبارت پر کوئی تبصرہ شروع کرنے سے قبل یہ عرض کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ اصلاحی صاحب مفسر قرآن کی حیثیت سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں اور یہی ان کا اصل میدان ہے، بایں ہمہ وہ اپنی تحریروں میں بار ہا حدیث کے شرعی ماخذ ہونے کا اعتراف بھی کر چکے ہیں ، اس تناظر میں راویان حدیث کے بارے میں ان کے نقطہ ہائے نظر کسی مسلمان عالم کے بجائے مستشرقین یا منکرین حدیث کے نقطہ ہائے نظر کے مانند ہوتے ہیں اور صحابہ کرام سے لے کر تبع تابعین تک حدیث کے راویوں کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ روایت حدیث میں امانت دار نہیں تھے، بایں معنی کہ احادیث میں اپنی ذاتی آراء کو شامل کر دینا، اپنی پسند یا ذوق کے مطابق حدیثوں کے بیان میں کمی بیشی کر دینا، یا اپنی کسی بات کو حدیث کا نام دے دینا ان کا معمول رہا ہے۔ یہ محدثین پر اتنا سنگین الزام ہے جو اگر صحیح ہو تو حدیث کا سارا ذخیرہ مشکوک اور ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے۔ اگر اصلاحی صاحب حدیث کے مسئلہ میں سنجیدہ ہوتے اور ان کا ذہن صاف ہوتا تو مذکورہ عبارت میں انہوں نے جو بات کہی ہے اس کو اس طرح بھی پیش کر سکتے تھے۔ ’’ایک ہی موضوع سے متعلق حدیثیں مفصل بھی آئی ہیں اور مختصر بھی، لہٰذا ان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے اور ان سے کوئی مسئلہ مستنبط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام حدیثوں پر ایک ساتھ غور کیا جائے۔‘‘ لیکن یہ صحیح اور معقول بات کہنے کے بجائے انہوں نے احادیث میں اطناب اور ایجاز کو راویوں کے ذوق کا نتیجہ
Flag Counter