Maktaba Wahhabi

166 - 531
اس کے علاوہ قرآن پاک میں جہاں کہیں شریعت محمدی کو ملت ابراہیمی کہا گیا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے تو اس اعتبار سے کہ یہ توحید خالص اور عدم شرک کی ملت تھی، اسی وجہ سے ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام مشرکین میں سے نہ تھے۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰینِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرَہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (الانعام: ۱۶۱) ’’کہو درحقیقت مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی راہنمائی کی ہے جو بالکل سیدھا دین ہے، ابراہیم کی ملت جو توحید کے لیے یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘ مشرکین اور یہود و نصاریٰ اور ان کے خود ساختہ اور من گھڑت طریقہ ہائے زندگی اور اللہ کے ساتھ شرک کے مظاہر کے ذکر کے بعد یہ آیت مبارکہ کس قدر برمحل ہے اس طرح دراصل مشرکین اور یہودو نصاریٰ کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ اگر تم ابراہیم سے اپنی نسبت کے دعویٰ میں سچے ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اور طریقۂ زندگی کو قبول کر لو اور شرک اور غیر اللہ کی عبادت اور خواہشات نفس کی پیروی سے باز آ جاؤ، کیونکہ یہی تو ابراہیم علیہ السلام کی بھی دعوت، اور ان کا بھی طریقہ تھا کہ وہ ہر طریقے سے کٹ کرتوحید کے لیے یکسو ہو گئے تھے اور شرک کی آلائشوں سے پاک تھے۔ اس طرح سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور یہودیوں کی بعض خود ساختہ شریعتون کے ذکر کے بعد ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے جو اپنے کمالات و فضائل کے اعتبار سے سراپا ایک مطیع و موحد امت کی حیثیت رکھتے تھے اور مشرکین سے کوئی نسبت نہیں رکھتے تھے اور نہ یہودیوں سے آپ کا کوئی تعلق تھا۔ آخر میں فرمایا: ﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (النحل: ۱۲۳) ’’پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی کی کہ یکسو ہو کر ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘ اس آیت میں ملت ابراہیم سے مراد ملت توحید ہے اور چونکہ بحکم الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس ملت ابراہیمی، اور ملت توحید کے پیرو ہیں تو ان لوگوں کے متبوع قرار پائے جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا مانتے ہیں ۔ ساتویں حدیث:… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد اللہ بن ابی کے لیے استغفار: مولانا امین احسن اصلاحی نے سورۂ توبہ کی آیات نمبر ۸۰ اور ۸۱، اور سورۂ منافقون کی آیت نمبر ۶ کی تفسیر کرتے ہوئے کوئی قابل اعتراض بات نہیں لکھی ہے، انہوں نے حسب معمول اگرچہ کسی حدیث کا ذکر نہیں کیا ہے، سوائے اس حدیث کے جو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [1]اور جس میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن أبی کا یہ قول نقل ہوا ہے: ﴿لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون: ۸) ’’اگر ہم مدینہ واپس جائیں
Flag Counter