Maktaba Wahhabi

197 - 531
ورنہ قرآن ہی کو قابل اتباع مانتے۔‘‘ (۲۳) اب جبکہ زیر بحث حدیث: میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہی ‘‘ پر اعتراض نے ایک اصولی بحث کی شکل اختیار کرلی ہے، اس لیے میں برنی اور غزالی کے اعتراضات کا جائزہ درج ذیل نمونوں کے تحت لینا چاہتا ہوں ، تاکہ گندگی پاکیزگی سے الگ ہو جائے۔ ۱۔ حدیث کی سند اور متن: ۲۔ امام بخاری کی بعد نظر اور حسن استنباط: ۳۔ حدیث اور رائے: ۴۔ ارشاد الٰہی:﴿لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾ حدیث کے خلاف نہیں : ۵۔ حدیث کا مفہوم: ۶۔ برنی اور غزالی کی حدیث دشمنی ۱۔ حدیث کی سند اور متن: ((حدثنا عبدان: حدثنا عبد اللّٰہ: أخبرنا ابن جریج، قال: أخبرنی عبد اللّٰہ بن عبد اللّّٰہ بن أبی مُلیکۃ، قال: توفیت ابنۃ لعثمان رضی اللّٰه عنہ بمکۃ وجئنا لنشہدہا وخضرہا ابن عمرو ابن عباس رضی اللّٰه عنہما وانی لجالس بینھما، اَو قال: جلست الی أحدھما، ثم جاء الآخر فجلس اِلی جنبی۔ فقال عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰه عنہ لعمرو بن عثمان: ألا تنھی عن البکاء: فان رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال: ان المیت لَیُعذَّبُ ببکاء أھلہ علیہ)) ’’ہم سے عبدان۔ عبد اللہ بن عثمان بن جبلہ۔ نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبد اللہ۔ بن مبارک۔ نے بیان کیا، کہا: ہم کو ابن جریج۔ عبد الملک بن عبد العزیز۔ نے خبر دی، کہا: مجھے عبد اللہ بن عبد اللہ بن أبی ملیکہ نے خبر دی اور کہا: مکہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی۔ ام أبان۔ کی وفات ہو گئی اور ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے گئے اور ابن عمر و ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں : میں ان دونوں کے درمیان بیٹھ گیا،یا کہا: ابن جریج کو شک ہے۔ میں ان دونوں میں سے ایک کے پاس بیٹھ گیا، پھر دوسرے تشریف لائے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عثمان سے فرمایا: تم رونے سے روکتے نہیں ؟، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے‘‘[1]
Flag Counter