Maktaba Wahhabi

206 - 531
یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۱۱۔۱۲) ’’اور جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی انہوں نے ایمان لانے والوں سے کہا، تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور ہم تمہاری خطاؤں کو اپنے ذمہ لے لیں گے، حالانکہ یہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی اپنے ذمہ نہ لیں گے یہ تو جھوٹے ہیں ، اور وہ یقینا اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ اور روز قیامت اپنی افتراء پردازیوں کے بارے میں پوچھے جائیں گے۔‘‘ معلوم ہوا کہ سورۂ انعام کی آیت نمبر ۱۶۴: ﴿قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْئٍ وَ لَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْہَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾’’کہہ دو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب چاہوں جبکہ وہی ہر چیز کا رب ہے اور ہر نفس جو گناہ کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا نفس کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ اسی طرح سورۂ فاطر کی آیت نمبر ۱۸: ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ﴾’’کوئی بوجھ اٹھانے والا نفس کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر گناہوں سے بوجھل نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا۔ ‘‘ میں جو بات کہی گئی ہے وہ سورۂ نحل اور سورۂ عنکبوت کی آیتوں میں بیان کردہ بات سے مختلف ہے، اس طرح ان آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔‘‘ مذکورہ وضاحتوں کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((اِن المیت لیعذب ببکاء أھلہ علیہ)) ’’میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ اور آیات قرآنی میں کوئی تعارض نہیں ہے اور جیسا کہ امام بخاری نے ترجمہ الباب کے ضمن میں واضح کیا ہے کہ اگر میت اپنی زندگی میں اپنے عزیزوں کی موت پر غیر شرعی گریہ و زاری اور نوحہ کرتا رہا ہے یا اس نے اپنے اہل خانہ کو اس منکر فعل سے روکا نہیں ہے تو اپنی موت پر اس کو ان کے رونے سے عذاب دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں اس مسئلہ میں پابند شرع تھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی بے جا گریہ وزاری اور نوحہ سے منع کرتا رہا تھا تو اپنی موت پر ان کے رونے سے اس کو جو عذاب ہو گا وہ بمعنی سزا اور عقاب کے نہ ہو گا، کیونکہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے، بلکہ عذاب بمعنی الم اور تکلیف کے ہو گا، جیسا کہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [1] اس طرح کے عذاب یا الم یا تکلیف سے مومن بندے اپنی زندگی میں دوچار ہوتے ہیں ، جبکہ وہ اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ ۵۔ حدیث کا مفہوم: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث میں میت کے عذاب کو اس کے الم اور تکلیف پر محمول کیا ہے اور جن لوگوں نے حدیث کی تاویل کر کے اس کو عقاب ہی کے معنی میں لیا ہے اور اس کو ان لوگوں کے لیے خاص کر دیا ہے جو اپنی زندگی
Flag Counter