Maktaba Wahhabi

231 - 531
ان کے فکری افلاس اور حدیث رسول سے ان کی بیزاری اور دلی تنگی کا پتہ چل جائے گا۔ چونکہ میرے پیش نظر صحیح بخاری کی کسی حدیث پر اعتراض کا صرف جواب دینا نہیں ہے، بلکہ اس مسئلہ کی ضروری وضاحت بھی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے، اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں زیر نظر مسئلہ کے تمام ضروری پہلوؤں کو بھی بیان کردوں ، کیونکہ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت حدیث کا گہرا اور وسیع علم نہیں رکھتی اور جو منکرین حدیث کے مغالطوں کے فریب خوردہ بھی ہیں اور کسی نہ کسی درجے میں ان سے متاثر بھی۔ حدیث کا پس منظر: حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاریخ کے عام حکمرانوں کی طرح کے محض ایک حکمراں نہ تھے، بلکہ وہ بے مثال عادل و منصف حکمراں ہونے کے علاوہ اسلام کے جاں نثار سپاہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب وشیدائی، اسلامی تعلیمات اور احکام کو حرف بحرف نافذ کرنے والے، منافقین کے سخت دشمن اور ان کی فتنہ انگیزیوں پر گہری نظر رکھنے والے حکمراں بھی تھے، بایں ہمہ وہ زبان نبوت کے سند یافتہ صاحب الہام بھی تھے اور اقامت حق میں ان کے بے لچک موقف اور طرز عمل کی وجہ سے شیطان اور شیطان نما انسان دونوں لرزہ بر اندام رہتے تھے اور حقیقی شیطان ان کے راستے میں آنے سے کتراتا تھا، ارشاد نبوی ہے: ((والذی نفسی بیدہ مالقیک الشیطان قط سالکاً فجاً الاسلک فجا غیر فجک)) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جب کسی راستے میں چلتے ہوئے شیطان کی تم سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے تو وہ تمہارے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرلیتا ہے۔‘‘[1] لیکن بڑھاپا اور شیخو خت لازمۂ بشریت ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اور راہ حق کے عظیم مسافر پر بھی یہ دور آنا تھا اور آیا، ادھر انہوں نے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھا ادھر معاشرے کے منافقین اور شرپسندوں میں حرکت اور جنبش بھی شروع ہوگئی اور جب انہوں نے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے آخری حج کیا تو ان کے کانوں میں ایسی باتیں پڑیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ایک نا گہانی حادثہ تھی جو اچانک اور کسی صلاح ومشورے کے بغیر وقوع پذیر ہوگئی تھی اور اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو ہم’’فلاں ‘‘ کے ہاتھ پر بیعث کرلیں گے، کیونکہ قرآن میں یہ نہیں آیا ہے کہ’’ایک خلیفہ کی وفات کے بعد دوسرے خلیفہ کے انتخاب کے لیے صلاح ومشورہ کرو ‘‘ گو یا کسی حکم پر عمل کرنے کے لیے اس کا قرآن میں ہونا ضروری ہے، حضرت عمر نے اپنی نگاہ بصیرت اور بعض لوگوں کی چہ میگوئیوں سے یہ بھی اندازہ کرلیا کہ بعد میں شاید کچھ لوگ یہ بھی کہیں کہ قرآن میں رجم کا حکم نہیں آیا ہے، بایں معنی کہ اس میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جو بصراحت رجم پر دلالت کرتی ہو، یہی باتیں سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ اسی رات لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے بعض
Flag Counter