Maktaba Wahhabi

242 - 531
مزید یہ کہ اس حدیث کا موضوع وہ خود تھیں اور صاحب معاملہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو مخاطب بنا کر فرمایا تھا: ’’لا نفقۃ لک ولا سکنی ‘‘ تمہار لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکونت ‘‘ (۱۲۸۰۔ ۳۷۔) اگرچہ اپنے حکم میں یہ ان تمام عورتوں کے لیے عام ہے جن کوتین طلاقیں دی جا چکی ہوں اور انہوں نے اس حکم نبوی پر عمل کر کے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع بھی دیدی تھی جس کے بعد آپ نے ان کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا تھا جس پر انہوں نے عمل کیا اور وہ نکاح ان کے حق میں خیرو بھلائی ثابت ہوا۔ یہ ساری تفصیلات حددرجہ مضبوط اور بے غبار سندوں سے ثبت ہیں جس کے بعد اس کو مشکوک بنانا، اس کی صحت پر اعتراض کرنا اور اس کے مقابلے میں فقہاء کے قیاس ورائے کو پیش کرنا دیدہ دلیری کے سوا کیا ہے؟ میں نے اوپر پوری تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ سورۂ طلاق کی آیات۱تا۶ کا تعلق صرف ان عورتوں سے ہے جن کو رجعی طلاق دی گئی ہے اور ایسی عورتوں کے لیے رہائش کا صراحتاً اور نفقہ کا ضمنا حکم دیا گیا ہے، رہیں وہ عورتیں جن کو تین طلاقوں کے ذریعہ جدا کر دیا گیاہو ان کا کوئی حکم ان آیتوں میں بیان ہی نہیں کیاگیا ہے ایسی صورت میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث دور یا قریب کہیں سے بھی مذکورہ آیات سے متصادم نہیں ہوتی جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حدیث سورۂ طلاق کی آیت نمبر۱: ﴿وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ ﴾ (الطلاق: ۱) اور آیت نمبر۶: ﴿اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنتُمْ مِّنْ وُجْدِکُمْ ﴾ (الطلاق: ۶) سے ٹکراتی ہے یا ان کے خلاف ہے ان کا صحیح جواب یہ ہے کہ حدیث مذکورہ آیتوں کے نہیں ، بلکہ ان کی تفسیر کے خلاف ہے اور کسی بھی آیت کی تفسیر حرف آخر نہیں ہے کہ حدیث کا اس کے مطابق ہونا ضرور ی ہو ‘‘ دراصل قران پاک میں کسی بھی جگہ مطلقہ ثلاثہ یا مطلقہ مبتوتہ کے نفقہ و رہائش کا حکم بیان ہی نہیں کیا گیا ہے، یہ حکم صرف فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کی اس زیر بحث حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی جا چکی ہوں ایام عدت میں شوہر پر اس کے نفقہ و سکونت کی ذمہ داری نہیں ہے، اور جو لوگ اس حدیث کو رد کر کے’’مطلقہ ثلاثہ ’’ کو نفقہ وسکونت، دینے کے قائل یا مدعی ہیں ان کے پاس نہ کلام اللہ سے کوئی دلیل ہے اور نہ حدیث سے۔ مذکورہ بالا وضاحتوں کے بعد فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کی صحت میں شک وشبہہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ حضرت عمراور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا موقف: جہاں تک اس حدیث کے انکار ورد سے متعلق حضرت عمراور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے ان اقوال کا معاملہ ہے جو بعض مفسرین اور فقہاء کے درمیان زبان زد ہوگئے اور جن کو بنیاد بنا کر انہوں نے اس حدیث کو رد کردیا تو ان کا مختصر جواب تو
Flag Counter