Maktaba Wahhabi

265 - 531
تمہارے اوپر یہ لازم قرار دے رہا ہوں کہ اس مسئلہ میں جھگڑا نہ کرو۔‘‘ امام ترمذی فرماتے ہیں : اس مسئلہ میں عمر، عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں : صحابہ کرام کو تقدیر کے مسئلے میں بحث ومباحثہ کرتے ہوئے دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب ناک ہو جانے کا سبب یہ تھا کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے جس تک عقل کی رسائی محال ہے، ایسی صورت میں اس مسئلہ میں کھوج کرید اور بحث وجدال کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ لوگ انسان کو مجبور محض مان کر عمل سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اس کے برعکس انسان کو مختار مطلق کہہ کر تقدیر کا انکار کر دیں گے، جیسا کہ جبریہ اور قدریہ نے کیا اور اہل سنت وجماعت کے مبنی بر کتاب وسنت عقیدہ سے کنارہ کش ہوگئے اور گمراہی ان کے حصے میں آئی۔ تقدیر کے سر بستہ راز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کا شمار ان غیبی امور میں ہوتا ہے جن پر ایمان مؤمن ہونے کی بنیادی شرط ہے اور قرآن وحدیث میں غیب سے مراد ہر وہ مخفی حقیقت ہے جس تک ذرائع علم کی رسائی نہیں ہے، لہٰذا غیبی امور پر جہاں ایمان کو لازمی قرار دیا گیا ہے وہیں ان کی کنہ اور حقیقت معلوم کرنے کی ہر کوشش بے سود ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہی اور تباہ کن اختلافات پر منتج ہوتی ہے۔ قرآن پاک کی دوسری سورت البقرہ کی دوسری آیت میں قرآن پاک کو متقین کے لیے ہدایت قرار دیا گیا ہے اور قرآن وحدیث کے مطابق متقی اللہ کے وہ بندے ہیں جو ہر اس قول وعمل سے بچتے ہیں جو اللہ کے غضب کا موجب ہیں اور تیسری آیت میں ان متقین کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور حدیث جبریل میں ایمانیات کی جو بنیادی فہرست بیان کی گئی ہے اس میں آخر میں اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پوری کائنات اپنے علم، قدرت اور قضا وقدر سے بنائی ہے اور وہی اس کی تدبیر کر رہا ہے اس تناظر میں اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ خیر و شر کی شکل میں اس دنیا میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے وہ اللہ کے علم وارادے، اس کے علم وقدرت اور قضاء وقدر کے تحت ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں تقدیر پر ایمان متقین کی صفت ہے اور اس مسئلہ میں عقلی موشگافیاں اور ان کے نتیجے میں انسان کے مجبور محض ہونے یا تقدیر الٰہی کے انکار کا عقیدہ غیر اسلامی عقیدہ ہے۔ انسان مجبور نہیں ہے: اگر انسان مجبور ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مشرکین اور گمراہ لوگوں کے اس دعوے کی مذمت نہ کی ہوتی کہ وہ شرک وکفر کی جس روش پر گامزن ہیں اللہ کی مشیت سے ہیں ، ارشاد الٰہی ہے: ﴿سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَنَا قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا اِنْ
Flag Counter