Maktaba Wahhabi

292 - 531
میں پوری تفصیل سے بیان کردیاگیاہے، لیکن ان دونوں کے درمیان جو ربط و تعلق ہے وہ اللہ کے رازوں میں سے ایک ایسا سربستہ راز ہے جس کا علم اللہ کے سوا کسی کوبھی نہیں ہے اور اس کی کھوج کرید لاحاصل، بلکہ باعث ضلالت ہے۔ وفات پاجانے والے نابالغ بچوں کا انجام: شیخ غزالی نے تقدیر کے مسئلہ میں حدیث کے قرآن کے خلاف ہونے کے اپنے دعوے کی تائید میں جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی ہے یہ حدیث صرف امام مسلم نے روایت کی ہے امام بخاری اپنی صحیح میں اسے نہیں لائے ہیں اس حدیث کے شروع میں وفات پاجانے والے ایک نابالغ انصاری بچے کے جنتی ہونے پر ام المومنین کا قول نقل ہوا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر فرمائی ہے اس کے بعد بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا: ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنتیوں اور جہنمیوں کو اسی وقت جنت اور جہنم کے لیے پیدا کردیا تھا جب ابھی وہ اپنے باپوں کی صلب میں تھے۔ غزالی نے حدیث کے صرف آخری فقرے سے تعرض کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ فقرہ’’جبر ‘‘ پر دلالت کرنے کی وجہ سے مردود ہے ان کے اس دعوے کی تفصیلی تردیداد پر گزر چکی ہے۔ رہا وفات پاجانے والے نابالغ بچوں کے انجام کا مسئلہ تو یہ قدرے تفصیل چاہتاہے آغاز کلام میں میں نے صرف یہ عرض کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کے قول پر اس اعتبار سے نکیر فرمائی تھی کہ انہوں نے انصاری بچے کے جنتی ہونے کا حکم اپنے اجتہاد سے لگایا تھا جو اس بات پر مبنی تھا کہ اس بچے نے نہ تو کسی گناہ کا ارتکاب کیا تھا اور نہ وہ گناہ کرنے کی عمر کو پہنچا ہی تھا، جبکہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا مسئلہ سراسر غیبی ہے اور غیبی امور کا علم قیاس ورائے اور فکرو اجتہاد سے نہیں حاصل کیا جاسکتا، بلکہ اس کے لیے نص صریح کی ضرورت ہے۔ وفات پاجانے والے نابالغ بچوں کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم تو ان بچوں کی ہے جن کے ماں باپ مسلمان ہوں اور دوسری قسم ان بچوں کی ہے جن کے ماں باپ غیر مسلم ہوں ، صحیح مسلم میں مروی ہے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جس وفات پاجانے والے بچے کا ذکر ہے وہ انصاری، یعنی مسلمان ماں باپ کا بیٹا تھا اس کے باوجود جب ام المومنین نے اس پر جنتی ہونے کا حکم لگایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نکیر فرمائی، اس لیے نہیں کہ ان کا یہ حکم غلط تھا، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے ایک ایسے مسئلہ میں لب کشائی کی تھی جس کے بارے میں ان کو کوئی علم نہیں تھا اس تناظر میں اگر اتفاقی طور پر ان کا حکم صحیح بھی ہوتا تب بھی شرعی نقطۂ نظر سے قابل گرفت ہوتا، کیونکہ غیبی امور کا علم رائے اور اجتہاد سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا اس طرح کے مسائل میں خاموشی او ر توقف ہی شرعاً مطلوب ہے۔ دراصل جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا اس وقت تک خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ علم نہیں تھا کہ
Flag Counter