Maktaba Wahhabi

310 - 531
صورت میں حدیث اور ارشاد الٰہی میں تعارض کا دعویٰ ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے صالح اورنیک بندوں پر ابلیس لعین اور اس کے کارندوں کے زور و قدرت کی نفی سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ ان کے دلوں میں وسوسہ اندازیاں بھی نہیں کرتاکیونکہ قرآن یہ صراعت کرتا ہے کہ شیطان اس طرح کی وسوسہ انداز یاں انبیاء علیہم السلام بلکہ افضل الخلق صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی کرتا رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ آپ کے اور دوسرے انبیاء پر اس کی وسوسہ اندازیاں اثر انداز نہیں ہوتی تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾(الاعراف:۲۰۰) ’’اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہو تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو، بیشک وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم سورۂ فصلت میں بھی دیا گیا ہے(۳۲) اور سورۂ مومنون میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے: ﴿وَقُلْ رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیٰطِینِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِی﴾ (المؤمنون:۹۷۔۹۸) ’’اور کہو، اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب میں ان کے اپنے پاس آنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ‘‘ یاد رہے کہ نزغ، نخس، ہمز اورلمز وغیرہ ہم معنی یا قریب المعنی الفاظ ہیں جو شیطان کی طرف سے دلوں میں ڈالے جانے والے غلط خیالات، وسوسوں اور اندیشوں پر دلالت کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا وضاحتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ہیں ۔ ۱۔ حدیث میں شیطان کے بچوں کو چھونے سے ان کو عارضی الم اور تکلیف پہنچانا ہے اور سلسلۂ اسباب کے تحت اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ اختیار دیا ہے۔ ۲۔ حدیث کا قرآن پاک کی ان آیتوں سے کوئی تعارض نہیں جن میں انبیاء اور صالح بندوں پر شیطان کے تسلط اور زور کی نفی کی گئی ہے، کیونکہ شیطان کے چھونے سے اس کا تسلط مراد نہیں ہے۔ ۳۔ شیطانی وسوسے عصمت انبیاء کے منافی نہیں ۔ حدیث واحد کی ظنیت: انکار حدیث کی طویل تاریخ کے مرحلہ وار مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ منکرین حدیث، الفاظ سے کھیلتے ہیں ، بلاشبہ ہر حدیث خبر ہے، لیکن ہر خبر حدیث نہیں ہے یہ ایک بدیہی اور مسلم بات ہے، پھر بھی منکرین اپنی بحثوں میں
Flag Counter