Maktaba Wahhabi

317 - 531
ہونے کے مکلف تنہا سید الملائکہ جبریل علیہ السلام تھے۔ (سورۂ البقرہ: ۹۷۔ سورۂ الشعراء: ۱۹۳) جو اپنی اصلی آواز میں اسے پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے۔ عصر صحابہ سے لے کر عصر تدوین تک روایت حدیث اسی سماع پر مبنی رہی جو قرآن پا ک کے حفظ ونقل کا بھی واحد ذریعہ رہا اس مسئلہ پر تفصیلی بحث حفاظت حدیث کے باب میں آ رہی ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب: سطور بالا میں ظنیت حدیث واحد کے دعویٰ کو قرآنی آیات کی روشنی میں غلط قراردیا جا چکا ہے، لیکن میر ی مذکورہ بالا معروضات پر یہ اشکال پیش کیا جا سکتا ہے، بلکہ پیش کیا بھی گیا ہے کہ خود ایک حدیث میں ظن وگمان کو جھوٹی بات فرما کر اس سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس اشکال کا کیا جواب ہے؟ جواب: میں نے اوپر ظنیت حدیث واحد کے رد میں دلائل کی زبان میں جو کچھ عرض کیا ہے اس کو بغور پڑھنے سے یہ اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا، لیکن چونکہ صحیحین کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حدیث کا علم رکھنے والے ایک اسکالر ابو الحسن مصطفی بن اسماعیل نے بھی اپنی کتاب: ’اتحاف النبیل باجوبۃ اسئلۃ المصطلح والجرح والتعدیل ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’خبر واحد سے صرف غلبۂ ظن کا مفہوم نکلتا ہے اور اس سے خبر دینے والے سے اس کی نسبت کی صحت کا یقین حاصل نہیں ہوتا ‘‘[1] اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے، میں پہلے پوری حدیث نقل کردیتا ہوں ، پھر اس کا مفہوم واضح کروں گا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ایاکم والظن، فان الظن اکذب الحدیث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولاتحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وکونوا عباداللّٰه اخوانا)) ’’تم لوگ گمان کرنے سے بچو، کیونکہ گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے اور تم ایک دوسرے کی ٹوہ نہ لگاؤ، اور نہ ایک دوسرے کی جاسوسی کرو، اور نہ آپس میں ایک دوسرے سے حسد کرو، اور نہ اپنے تعلقات کو توڑو اور نہ آپس میں ایک دوسرے سے بغض رکھو اور اللہ کے ایسے بندہ بنو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘[2] اس حدیث کے الفاظ اور اس کا سیاق وسباق اس قدر واضح ہے کہ اس میں مذکور’’ظن ‘‘ کسی وضاحت کا محتاج نہیں رہ جاتا اور حدیث کا علم رکھنے والے ایک شخص کے اس سے حدیث واحد کی ظنیت پر استدلال کچھ عجیب سا لگتا ہے، مگر اپنی اپنی فہم ہے جس پر کسی کی ملامت نہیں کی جاسکتی۔
Flag Counter