Maktaba Wahhabi

329 - 531
نسخے تیار کرائے تھے ان میں سے ایک نسخہ دارلخلافت مدینہ منورہ میں رکھا گیا تھا، لیکن خلیفہ سوم کے وقت شہادت قرآن کی تلاوت کا واقعہ واقدی اور سیف بن عمر نے بیان کیا ہے اور یہ دونوں کذاب تھے، ویسے بھی یہ خبر واحد ہے اور اصلاحی مکتبۂ فکر سے وابستہ لوگوں کے نزدیک خبر واحد ناقابل استدلال ہے!!! قرآن کے قطعی ہونے کا سبب اس کا اعجاز: میں ایک بار پھر پوری شد و مد اور پورے یقین قلب کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ قرآن و حدیث کی حفاظت کا معیار ہر دور میں یکساں تھا اور دونوں کی حفاظت بنیادی طور پر ان کو زبانی یاد کر کے اور زبانی دوسروں تک پہنچا کر کی گئی۔ قرآن کو اس کے نزول کے فوراً بعد ہی ضبط تحریر میں لے آیا جاتا تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن کے لکھے ہوئے متفرق اجزاء یا صحیفوں کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے ایک صحیفہ میں پوری ترتیب کے ساتھ جمع بھی کیا گیا جن سے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سات مزید نسخے تیار کر کے مختلف اسلامی شہروں میں بھیجے بھی اور لوگوں کو قریش کے لہجے میں قرآن کی تلاوت پر متحد کر کے اختلاف قرأت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ یہ ساری باتیں سو فیصد صحیح اور مطابق واقعہ ہیں ، لیکن جہاں قرآن کی کتابت میں بنیادی کردار سینوں میں محفوظ قرآن ہی کا رہا وہیں اس کی آیتوں اور سورتوں میں ترتیب بھی سینوں ہی میں محفوظ قرآن کی روشنی میں دی گئی، کیونکہ حفاظ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر جو قرآن اپنے سینوں میں محفوط کیا تھا وہ محفوط ہونے کے ساتھ ساتھ مرتب بھی تھا، جبکہ مختلف اور متفرق صحیفوں میں جمع کیے جانے اور ضبط تحریر میں لائے جانے کی وجہ سے قرآن محفوظ تو تھا مگر غیر مرتب تھا۔ قرآن کی طرح حدیث بھی محفوظ ہے اور محفوظ رہے گی، کیونکہ دین کی بقا اسی پر موقوف ہے البتہ قرآن کو کلام الٰہی ہونے کی وجہ سے جو اعجازی شان حاصل ہے وہ بشری کلام ہونے کی وجہ سے حدیث کو حاصل نہیں ہے، محفوظ تو دونوں ہیں ، کیونکہ اللہ و رسول دونوں کی اطاعت فرض ہے، اللہ کی اطاعت اس لیے فرض ہے کہ وہی مطاع حقیقی ہے اور رسول کی اطاعت اس لیے فرض ہے کہ اللہ نے اسے فرض قرار دیا ہے اور اس کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے، اور اس اطاعت اللہ و رسول کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دونوں محفوظ رہیں اور فعلاً محفوظ ہیں بھی، کیونکہ دین مکمل طور پر باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا، اور اس دین کا بنیادی ماخذ قرآن و حدیث ہی ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی کم بیشی دین میں کمی بیشی ہے جو اس کے کمال کے منافی ہے۔ قرآن اس طرح محفوظ ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک کسی کمی بیشی، اور کسی تحریف اور تبدیلی کے بغیر اور کسی ملاوٹ اور آمیزش سے پاک صورت میں محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا اور اس کی ہر ہر آیت، بلکہ ہر ہر حرف کے منزل من اللہ ہونے کا حق الیقین ہے، مگر اس کو یہ تحفظ اس وجہ سے حاصل نہیں ہے کہ اس کی ہر ہر آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست سن کر نقل کرنے والوں کی تعداد تواتر کی حد کو پہنچی
Flag Counter