Maktaba Wahhabi

334 - 531
جو صحابۂ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست سن کر ان کی روایت کرنے والے رہے ہوں انہی سے یہ توقع رکھنا کہ انہوں نے جھوٹی روایتیں وضع کر کے لوگوں میں پھیلائیں ایسی مذموم صفت ہے جس سے وہی شخص موصوف ہو سکتا ہے جس کا دل نور ایمان سے خالی ہو، چنانچہ صحابہ کرام کے حوالہ سے ایسا ایک بھی واقعہ ثابت نہیں ہے جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ کسی صحابی نے کسی بھی غرض کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کوئی جھوٹی روایت گھڑی ہے، حتی کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے آخری ایام میں اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پورے دور خلافت میں صحابۂ کرام میں شدید سیاسی اختلافات ہوئے اور خونین جنگیں بھی ہوئیں ، مگر ان میں سے کسی نے بھی اپنے حامیوں کی منقبت اور اپنے مخالفین کی مذمت میں کوئی ایک بھی روایت گھڑ کر لوگوں میں نہیں پھیلائی، اس مسئلہ میں مستشرقین اور محمود ابوریہ جیسے منکرین حدیث، بلکہ منکرین حق نے جو دعوے کیے ہیں ان کی پشت پر کوئی بھی ٹھوس اور قابل اعتماد دلیل نہیں ہے۔ روایت حدیث میں منافقین کا کوئی حصہ نہیں : ہجرت کے بعد ہی مدینۃ الرسول میں منافقین پیدا ہو گئے تھے اور قرآن و حدیث میں مختلف مواقع پر ان کے اوصاف بھی بیان کیے جاتے رہے، قرآن پاک میں تو ان کے نام سے پوری ایک سورت ہے، لیکن اللہ اور رسول نے نام لے کر کسی ایک بھی شخص کو منافق نہیں قرار دیا، کیونکہ اس سے ایک مسلم معاشرے میں جو بلبلہ اور اضطراب رونما ہوتا اس کے انجام بد کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے، اسی وجہ سے عبد اللہ بن أبی جیسے رئیس المنافقین تک کو صریح لفظوں میں منافق نہیں قرار دیا گیا، حتی کہ وہ اپنی عمر کے آخری دن تک جمعہ اور جماعت میں شریک ہوتا رہا اور غزوات میں بھی حصہ لیتا رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اور ان کی دلداری کے لیے اس کو کفنانے کے لیے اپنا کرتہ بھی عنایت فرمایا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی۔ لیکن قرآن و حدیث میں بیان کردہ منافقین کے اوصاف کی روشنی میں صحابہ کرام ان کو پہچانتے تھے اور شاید حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو منافقین کے ناموں کا علم تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بطور خاص یہ نام بتا دئیے تھے۔ [1] محدثین اور کتب رجال کے مصنّفین نے حدیث کے راوی جن صحابہ کرام کے تذکرے لکھے ہیں ان میں ایک بھی ایسا شخص شامل نہیں ہے جس کا شمار منافقین میں ہوتا ہو یا جس کی کوئی بھی صفت منافقین کی صفت سے مشابہ ہو، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روایت پر اہل نفاق کا داغ نہیں لگنے دیا ہے، اگر طبقۂ صحابہ کے بعدتابعین اور تبع تابعین کے طبقوں اور ان کے بعد کے زمانوں میں دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے بھیس میں حدیثیں روایت کی ہوں تو ان کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ ایسی روایتوں پر حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا، ان کا ذکر حدیث کے ضمن میں مجازاً اور مشاکلۃً کیا جاتا ہے۔
Flag Counter