Maktaba Wahhabi

345 - 531
اِذا جاء ک المنافقون‘‘ الی قولہ: ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللّٰہ الی قولہ: لَیُخرجن الأعزُ منھا الأذل: ’’فأرسل الیَّ رسولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فقرأ ھا علیَّ، ثم قال: ان اللّٰہ قد صدَّقَکَ)) ’’میں اپنے چچا… سعد بن عبادہ… کے ساتھ تھا، اور میں نے عبد اللہ بن أبی بن سلول کو کہتے ہوئے سنا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو تاکہ وہ منتشر ہوجائیں ، اس نے یہ بھی کہا، درحقیقت جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو زیادہ عزت والا وہاں سے ذلیل تر کو نکال باہر کر دے گا، میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور میرے چچا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا، جنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سچا اور مجھے جھوٹا قرار دے دیا جس پر مجھے ایسا غم ہوا جس کے مانند کبھی نہیں ہوا تھا اور میں اپنے گھر میں جا کر بیٹھ گیا، پھر اللہ عزوجل نے ﴿اذا جاء ک المنافقون﴾ جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں ﴿ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللّٰہ﴾ ، یہی تو ہیں جو کہتے ہیں ، جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو‘‘، تک اور ﴿لیخرجن الأعز منھا الأذلَ﴾ ’’یقینا جو زیادہ عزت والا ہے وہ وہاں سے ذلیل کو نکال کر باہر کر دے گا‘‘ تک نازل فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا بھیجا اور مجھے نازل ہونے والی آیات سنائیں ، پھر فرمایا : درحقیقت اللہ نے تمہیں سچا قرار دے دیا ہے۔‘‘[1] ایک سوال اور اس کا جواب: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ جن سے یہ حدیث روایت ہے اور جو خود اس حدیث کا موضوع تھے، ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ان کی خبر کی تکذیب فرما دی تھی اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن أبی اور اس کے ساتھیوں کے حلفیہ بیان کو سچ مان لیا تھا، لیکن حق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو صریح لفظوں میں ان کی تکذیب فرمائی تھی اور نہ منافقین کی تصدیق فرمائی تھی، بلکہ ان کے دی ہوئی خبر اور اس کے جواب میں عبد اللہ بن أبی کے حلفیہ بیان کو سن کر جس رد عمل کا اظہار فرمایا تھا اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ آپ نے ان کی خبر رد فرما دی ہے اور ابن ابی کی بات قبول فرما لی ہے یہ دراصل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا احساس تھا جس کے پیچھے لوگوں کی یہ باتیں بھی تھیں کہ: زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بیانی کی ہے‘‘[2]اور خود ان کے چچا نے بھی ان سے یہی کہا تھا کہ تم یہی چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کر دیں ۔‘‘[3]مگر حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا تھا کہ فریقین
Flag Counter