Maktaba Wahhabi

347 - 531
رسید کر دی، انصار اس حرکت کو اپنی سخت توہین تصور کرتے تھے اس پر انصاری نے انصار کو اور مہاجر نے مہاجرین کو پکارا، اس موقع پر عبد اللہ بن ابی کو جب اس کی خبر ملی جو مذکورہ غزوہ میں شریک تھا، تو ا س نے ازراہ طنز اور نکارت کہا: آخر انہوں نے کر ہی ڈالا‘‘ یعنی مہاجرین نے انصار پر تعدی کر ہی دی، پھر اس نے وہ باتیں کہیں جن کا ذکر سورۂ منافقین اور مذکورہ حدیث میں آیا ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ اسے چھوڑو یہ تو بڑی گندی اور بدبودار ہے۔‘‘ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اسے چھوڑو، لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ۔[1] ۴۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اس وقت زیادہ سے زیادہ ۱۴ برس کے نوجوان تھے اور عبد اللہ بن ابی کا حلفیہ بیان سن کر خزرج کے لوگوں نے اس کی تصدیق کر دی۔ یاد رہے کہ زید بن ارقم نے ’’چچا‘‘ کہہ کر جن بزرگ کو مراد لیا تھا وہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے جو ان کے حقیقی چچا نہیں تھے، ان کے حقیقی چچا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تھے، چونکہ زید کا تعلق بھی خزرج سے تھا اور سعد اس کے سردار تھے اس لیے انہوں نے ان کی بزرگی کے پیش نظر ان کو ’’چچا‘‘ کہا تھا۔[2]اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بھی زید بن ارقم کے بجائے عبد اللہ بن أبی ہی کی تائید کی تھی۔‘‘ نتیجۂ بحث: اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق عمل کرنے اور منافقین کے خلاف کوئی عملی اقدام نہ کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ خود اللہ تعالیٰ نے منافقین کے جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا اور زید بن ارقم کو اپنی طرف سے صدق گوئی اور حسن سماعت کی ایک ایسی سند عطا کر دی جس سے بڑی اور جس کی طرح ناقابل انکار کوئی اور سند نہیں ہو سکتی۔ اس حدیث یا اس واقعہ سے جس کے راوی صرف صاحب واقعہ زید بن ارقم ہی نہیں ہیں ، بلکہ دو اور صحابی جابر بن عبد اللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم بھی ہیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ عہد نبوی میں رونما ہونے والا کوئی بھی واقعہ جس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہا ہو یا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا کوئی پہلو بیان کیا گیا ہو بیان کیے جانے اور محفوظ ہونے سے رہ نہیں گیا ہے اور اگر کسی واقعہ کو چھپانے یا بدلنے کی دشمنان اسلام کی جانب سے کوشش بھی کئی گئی تو عالم الغیوب نے اسے بیان کر کے اپنے رسول کو صحیح صورتحال سے باخبر کر دیا۔ کیا حدیث کی کتابت ممنوع تھی: اوپر یہ بات آ چکی ہے کہ منکرین حدیث ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ حدیث کی حفاظت کے لیے وہ
Flag Counter