Maktaba Wahhabi

361 - 531
ان شاء اللہ تعالیٰ میں ان آثار کا تجزیہ کر کے اور ان کی استنادی حیثیت واضح کر کے یہ دکھاؤں گا کہ یہ آثار اس کے اور اس کے ہم مشرب دوسرے منکرین حدیث کے حق میں نہیں ہیں ۔ ۱۔ پہلا اثر: ابوریہ نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۳ پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((جمع أبی الحدیث عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فکانت خمسمائۃ حدیث فبات لَیلۃً یتقلب کثیرا، قالت: فَغَمَّنِی فقلت تنقلب لشکوی أو لشئی بلغک؟ فلما أصبح قال: أی بُنَیۃ ھلمی الأحادیث التی عندکِ فجئتُہ بھا فدعا بنا رفأ حرقھا وقال: خشیت أنی أموتُ وھی عندکِ، فیکون فیھا أحادیث من رجل ائتمنتہ ووثقت بہ ولم یکن کما حدثنی، فأکون قد تقلدت ذلک)) [1] ’’میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حدیثیں جمع کر رکھی تھیں جو پانچ سو تھیں اور ایک رات جب وہ لیٹے تو بکثرت کروٹ بدلتے رہے جس نے مجھے غم زدہ بنا دیا۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ کو کوئی تکلیف یا عارضہ لاحق ہے کہ کروٹ بدل رہے ہیں ؟ اور جب صبح ہوئی تو فرمایا: بیٹی! وہ حدیثیں جو تمہارے پاس ہیں لاؤ، میں انہیں لے آئی اور انہوں نے آگ طلب کی اور اس سے ان کو جلاد یا اور فرمایا: مجھے یہ اندیشہ دامن گیر ہو گیا تھا کہ میں مر جاؤں اور وہ تمہارے پا س موجود رہیں اور ان میں ایسے شخص کی حدیثیں ہوں جن پر میں نے اعتماد اور بھروسہ کیا ہے اور وہ اس طرح نہ ہوں جیسی انہوں نے مجھ سے بیان کی ہیں اور اس کا وبال میرے اوپر آئے۔‘‘ یہ روایت جھوٹ او رمن گھڑت ہے ابوریہ نے اسے علامہ علاؤ الدین علی متقی بن حسام الدین ھندی متوفی ۹۷۵ھ کی کتاب کنز العمال سے نقل کیا ہے جس کا حوالہ دینے کے بجائے مستدرک حاکم کا حوالہ دیا ہے، اور علی متقی نے یہ روایت حافظ عماد الدین بن کثیر کی مسند الصدیق سے انہی کی بیان کردہ سند سے نقل کی ہے اور ابن کثیر نے اپنی مذکورہ کتاب میں یہ اثر صاحب مستدرک امام حاکم ہی کی سند سے بیان کیا ہے جو حسب ذیل ہے: ’’ابو عبد اللہ حاکم نیسا پوری کہتے ہیں : ہم سے بکر بن محمد صریفینی نے مرو میں بیان کیا، کہا: ہم سے موسی بن حماد نے بیان کیا، کہا: ہم سے مفضل بن غسان نے بیان کیا، کہا: ہم سے علی بن صالح نے بیان کیا، کہا: ہم سے موسی بن عبد اللہ بن حسن بن حسن نے ابراہیم بن عمرو بن عبید اللہ تیمی سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا،
Flag Counter