Maktaba Wahhabi

364 - 531
۲۔ دوسرا اثر: ابوریہ نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۴ پر حافظ ابن عبد البر اور امام بیہقی کے حوالہ سے عروہ بن زبیر کی سند سے جو اثر نقل کیا ہے اس کے الفاظ ہیں : ((أن عمر أراد أن یکتب السنن، فاستفتی أصحابَ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی ذلک۔ وفی روایۃ البیھقی: فاستشار۔ فأشاروا علیہ أن یکتبھا، فطفق عمر یستخیر اللّٰہ شھراً، ثم أصبح یوماً، وقد عزم اللّّٰہ لہ فقال: اِنی کنت أرید أن أکتب السنن، واِنی ذکرت قوماً کانوا قبلکم کتبوا کتباً فأکبوا علیھا وترکوا کتاب اللّٰہ، وانی واللّٰہ لا أشرب کتابَ اللّٰہ بشئی أبداً، وروایۃ البھیقی ولا ألبس کتاب اللّٰہ بشئی)) [1] ’’عمر رضی اللہ عنہ نے سنن کو ضبط تحریر میں لانے کا ارادہ کیا تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے ان کی رائے دریافت کی اور بیہقی کی روایت کے مطابق ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ انہیں ضبط تحریر میں لے آئیں ۔ اس پر عمر ایک ماہ استخارہ کرتے رہے، پھر ایک دن صبح کو جبکہ اللہ نے ان کے دل میں پختہ ارادہ ڈال دیا تھا فرمایا: میں سنن کو ضبط تحریر میں لانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ میں نے ان لوگوں کو یاد کر لیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ، اور اللہ کی قسم میں اللہ کی کتاب کو کسی دوسری چیز میں خلط ملط نہیں کروں گا، اور بیہقی کی روایت میں ہے: میں کتاب اللہ کو کسی اور چیز میں گڈ مڈ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یہ روایت عمر اور عروہ کے درمیان سند کے منقطع ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے: عمر رضی اللہ عنہ کی وفات (۲۳ھ) کے وقت عروہ (متوفی ۹۳ھ) صرف تین برس کے تھے۔ اس لیے اس واقعہ کے شاہد نہیں ہو سکتے اور انہوں نے یہ تصریح بھی نہیں کی ہے کہ یہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا ہے۔ یہ تو سندکا حال تھا، رہا اس روایت کا متن تو ا س میں عمر رضی اللہ عنہ کا جو یہ قول نقل ہوا ہے کہ ’’میں اللہ کی کتاب کو کسی دوسری چیز میں خلط ملط نہیں کروں گا‘‘ تو ایسا کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کیونکہ خود ان کے مشورے سے قرآن پاک جمع کیا جا چکا تھا جس میں احادیث کے مل جانے اور خلط ملط ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہیں تھا اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ابو شاہ یمنی کے لیے فتح مکہ کے موقع پر آپ کا خطبہ قلم بند کیا جا چکا تھا۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی اجازت سے بعض حدیثیں لکھ رکھی تھیں اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو تو بصراحت آپ نے حدیثیں قلم بند کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، اور وہ اپنی مرویات کو عملاً لکھا بھی کرتے تھے اور جو مجموعۂ احادیث انہوں نے تیار کیا تھا اس کا نام ’’الصادقہ‘‘ دے رکھا تھا۔
Flag Counter