Maktaba Wahhabi

378 - 531
رہا سہا علمی بھرم اور اعتماد بھی باقی نہ رہ سکا۔ مثال کے طور پر ان کے چند دعوے درج ذیل ہیں : ۱۔ حدیث کی عدم کتابت کا سبب کاتبین کی قلت اور ان چیزوں کی کمیابی نہیں تھا جو لکھنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں اور نہ اس کا سبب یہی تھا کہ قرآن میں غیر قرآن بھی مل جائے گا۔ [1]پہلے سبب کی تردید کرتے ہوئے وہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ’’اگر عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت قرآن پاک کے ایک لاکھ نسخے لکھے ہوئے نہیں تھے تو اس سے کم بھی نہیں تھے، سوال یہ ہے کہ جو حکومت اتنی بڑی تعداد میں قرآن پاک کے نسخے لکھوا کر مسلمانوں میں پھیلا سکتی تھی کیا وہ ۵۰ ہزار حدیثیں لکھوا کر نہیں پھیلا سکتی تھی؟ [2] دوسرے سبب کی نفی کرتے ہوئے ان کا دعوی ہے کہ اگر کتابت حدیث کی اجازت عام سے قرآن کے ساتھ غیر قرآن کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ تھا تو یہ اندیشہ تورات و انجیل کی موجودگی سے کیوں نہ ہوا جن کے متعدد نسخے متد اول تھے اور صحیفۂ لقمان بھی عربوں کے پاس موجود تھا؟[3] اپنے اس دعویٰ کی صحت پر مناظر احسن گیلانی نے دو نہایت جھوٹے اور ناقابل التفات واقعات سے استدلال کیا ہے جو درج ذیل ہیں : ۱۔ عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں گھی ہے اور وہ کبھی اس ہاتھ کو چاٹتے ہیں اور کبھی اس کو۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا یہ خواب بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: تم دونوں کتابیں پڑھتے ہو، یعنی تورات اور قرآن‘‘ اس کے بعد راوی کا بیان ہے کہ ’’وہ دونوں کتابیں پڑھتے تھے۔‘‘ ۲۔ یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں تورات پڑھنے کی استعداد پیدا کر چکے تھے۔ [4] اسی صفحہ کے حاشیہ پر حافظ ذھبی کی تذکرۃ الحفاظ کے حوالہ سے انہوں نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے متعلق بھی ایک واقعہ نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ: عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایک دن قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور ایک دن تورات کی۔‘‘ گیلانی کے مفروضوں کا سنجیدہ علمی جائزہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے جو منع فرمایا تھا، تو گویا یہ ان احکام میں فرق کو باقی و دائم رکھنے کی راہ میں پہلا قدم تھا جو ان دونوں ماخذوں … قرآن و حدیث… سے ثابت ہے اور قوت و ضعف میں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مولانا گیلانی نے اس مفروضے کو اپنی کتاب کے صفحہ ۱۸۰ سے صفحہ ۲۲۳ تک بار بار دہرایا ہے اور اپنے ہم مشرب بعض فقہاء کے اقوال سے اس کے حق میں استدلال بھی کیا ہے، چونکہ انہوں نے یہ مفروضہ ’’درجۃ اخبار الأحاد‘‘
Flag Counter