Maktaba Wahhabi

402 - 531
تبصرہ: ابن بطال نے اس حدیث کی عدم صحت کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے اس کو ہرزہ سرائی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا میں ذیل میں اس کو نمبروار واضح کر دینا چاہتا ہوں تاکہ اہل تاویل و تعطیل کا طرز استدلال سمجھا جا سکے۔ ۱۔ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’انگلی‘‘ کا اثبات حق ہے جس طرح قرآن و حدیث میں اس کے لیے دو ہاتھوں ، چہرہ اور دو آنکھوں کا ذکر آیا ہے اور یہ الفاظ انہی معنوں میں آئے ہیں جن کے لیے یہ بنائے گئے ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ کے حق میں ان کا اثبات ارشاد الٰہی: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ ’’اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ کے دائرے میں کرنا چاہیے ،مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ،ا نگلی، چہرہ اور آنکھیں رکھتا ہے، لیکن مخلوق کے ہاتھوں ، انگلیوں ، چہروں اور آنکھوں کی طرح نہیں ، کیونکہ وہ نہ تو مخلوق کی مانند ہے اور نہ مخلوق اس کے مانند ہیں ۔ ابن بطال کا یہ دعویٰ کہ حدیث میں مذکور ’’اصبع‘‘ کو عضو پر محمول نہیں کیا جا سکتا، حق کا انکار اور مکابرہ‘‘ ہے۔ انہوں نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’انگلی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی ذاتی صفت ہے جس کی کوئی کیفیت بیان کرنا اور اس کا تعین کرنا درست نہیں ‘‘ برحق ہے، مگر بے محل ہے، اس لیے کہ یہودی عالم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ’’أصبع‘‘ کی کوئی کیفیت اور صفت نہیں بیان کی تھی کہ اس توضیح کی ضرورت ہوتی، بلکہ اس نے ((ان اللّٰہ یجعل السموات علی اصبع… یا ان اللّٰہ یُمسک السموات علی اصبع…))(۷۴۱۴) کی تعبیر اختیار فرمائی تھی اور اس تعبیر میں اور قرآن پاک کی تعبیروں : ﴿وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ﴾ ’’اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (سورہ الزمر:۶۷) اور ﴿مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ ’’تجھے کس چیز نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘‘ (سورۂ ص:۷۵) میں سرمو بھی فرق نہیں ہے۔ یہودی عالم نے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے آسمانوں ، زمینوں اور دوسری مخلوقات کو اپنی انگلیوں پر اٹھانے کی جو بات کہی تھی اس میں دور دور سے بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی مطلق قدرت سے زیادہ اور بڑا سمجھ رہا تھا ایسی صورت میں ابن بطال کو فلسفہ بگھارنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ’’مدعا‘‘ سمجھ گئے تھے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کی برحق بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہنسے تھے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک نمایاں ہو گئے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی جن ذاتی صفات کا ذکر فرمایا ہے ان سے اس کی ذات کے موصوف ہونے کی نفی کرنا یا ان کی تاویل کرنا اور ان کے ظاہری الفاظ سے نکلنے والے معنوں کے علاوہ ان سے کوئی اور معنی مراد لینا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں تحریف، تعطیل اور الحاد… کجروی… ہے۔ ابن بطال نے زیر بحث حدیث میں مذکور ’’اصبع‘‘ کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی مراد لینے کی دلیل میں جو
Flag Counter