Maktaba Wahhabi

404 - 531
خطابی کی یاوہ گوئی: اس زیر بحث حدیث کے بارے میں صحیح بخاری کے ایک دوسرے شارح ابو سلیمان محمد بن بستی خطابی متوفی ۳۸۸ھ نے جو دور از کار باتیں فرمائی ہیں وہ حقیقت بیانی کے بجائے یاوہ گوئی اور بکواس کے قبیل سے ہیں ، لیکن چونکہ ان سے اہل تاویل و تعطیل کے نقطۂ نظر اور طرز استدلال کا پتہ چلتا ہے اس لیے فتح الباری ہی سے خطابی کا پورا قول نقل کر دینا چاہتا ہوں ۔ بعد میں ان کے مغالطوں کا پردہ چاک کروں گا: قرآن میں یا ایسی حدیث میں جس کی صحت قطعی ہو ’’اصبع‘‘ … انگلی… کا ذکر نہیں آیا ہے، اور یہ طے پا چکا ہے کہ ہاتھ سے ’’عضو‘‘ نہیں مراد ہے کہ اس کے ثبوت سے انگلیوں کے ثبوت کا تصور کیا جائے، بلکہ یہ توقیفی امر ہے جس کا اطلاق شارع نے کیا ہے جو ناقابل تکییف و تشبیہ ہے، اس کا بھی امکان ہے کہ یہودی نے اپنی بات میں ’’انگلیوں ‘‘ کی آمیزش اپنی طرف سے کر دی ہو، کیونکہ یہودی اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں میں شامل تھے اور جن الفاظ کے تورات میں سے ہونے کے مدعی تھے وہ تشبیہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کا شمار مسلمانوں کے مذاہب میں نہیں ہوتا، رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم کی بات پر ہنسنا تو اس کو رضا اور عدم رضا دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے، رہا راوی کا قول کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خبر کو سچ مان کر ہنسے تھے‘‘ تو یہ ان کا وہم و گمان ہے، اس لیے کہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے، لیکن اس روایت[1] کے علاوہ کسی اور روایت میں یہ اضافہ… تصدیقا لقول الخبر… نہیں ہے اور اگر اس کی صحت مان بھی لی جائے تو بسا اوقات چہرے کی سرخی سے شرمندگی پر اور زردی سے خوف پر استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ صورت واقعہ اس کے برخلاف ہو سکتی ہے: یعنی چہرے کی سرخی بدن میں کسی تبدیلی مثلاً خون میں جوش اور زردی صفراء میں اختلاط کے نتیجے میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر اس اضافے کو ’’محفوظ‘‘ بھی مان لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا قول: ﴿وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ﴾ تاویل پر محمول کیا جائے گا، یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں کو لپیٹ دینے پر قدرت رکھتا ہے، اور ان کو ایک ساتھ جمع کر لینا اس کے لیے کسی شخص کی طرح کسی چیز کو جمع کر کے اپنی ہتھیلی میں لے لینے کے مانند آسان ہے جس نے پوری ہتھیلی میں اسے لینے کے بجائے صرف بعض انگلیوں سے اسے اٹھا رکھا ہو۔‘‘ خطابی نے ایک صحیح حدیث کو ناقابل قبول قرار دینے کے لیے جو دور از کار تاویلات کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات پر جو مجازی ’’خول‘‘ چڑھانے کی سعی مذموم کی ہے اس سے اپنے مبلغ علم اور فساد عقیدہ دونوں کو بے نقاب کر دیا ہے، موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر میں ان کی یاوہ گوئی اور بکواس کے ایک ایک گوشے اور پہلو کا جائزہ لوں گا۔
Flag Counter