Maktaba Wahhabi

405 - 531
تبصرہ: ۱۔ خطابی کا یہ دعوی: ’’اصبع‘‘… انگلی… کا ذکر نہ قرآن میں آیا ہے اور نہ ایسی حدیث میں جس کی صحت قطعی ہے اور یہ طے اور ثابت ہے کہ ہاتھ سے مراد عضو نہیں ہے۔‘‘ بلاشبہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے لیے تنہا ’’انگلی‘‘ کا ذکر نہیں آیا ہے، البتہ صحیح حدیث میں آیا ہے، لیکن قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے لیے ید… ہاتھ… کا ذکر آیا ہے اور یہ بات مسلم اور قطعی ہے کہ ہاتھ انگلیوں کے بغیر نہیں ہوتا، مزید یہ کہ ارشاد الٰہی: ﴿وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ ’’اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی۔‘‘ میں ’’مٹھی‘‘ اور قبضہ کو ہاتھ کی انگلیوں کے آپس میں ملانے سے وجود ملتا ہے اس سے اللہ کے لیے انگلیوں کا ثبوت اس کی صفت کمال سے مل گیا، کیونکہ انگلیوں کے بغیر ہاتھ کا وجود نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ رہی حدیث جس میں اللہ کے لیے انگلی کا ذکر آیا ہے تو وہ فقہاء، معتزلہ، متکلمین اور اہل تاویل و تعطیل کے نزدیک ’’خبر واحد‘‘ ہونے کی وجہ سے اگرچہ قطعی الثبوت نہیں ہے، لیکن چونکہ اس میں قرآن کے اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے اس لیے قرآن کی وجہ سے اس کو بھی ’’قطعیت‘‘ حاصل ہو گئی۔ میری مراد اس حدیث سے ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست سن کر عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے بے غبار سند کے ساتھ اپنی صحیح میں اس کی تخریج کی ہے: ((ان قلوب بنی آدم بین اصبعین من أصابع الرحمٰن، کقلب واحد، یصرفہ حیث یشاء، ثم قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : اللّٰہم: مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک)) [1] ’’درحقیقت اولاد آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک شخص کے دل کی طرح ہیں جن کو جہاں وہ چاہتا ہے، پھراتا رہتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: اے دلوں کے پھیرنے والے معبود! ہمارے دلوں کو ہر طرف سے پھیر کر اپنی طاعت پر جما دے۔‘‘ یہ صحیح حدیث اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کو ثابت کرتی ہے، لہٰذا ہم ان کی کوئی صفت یا کیفیت بیان کیے بغیر، مخلوق کی انگلیوں سے ان کو تشبیہ دئیے بغیر اور ان کے ظاہری الفاظ سے نکلنے والے معنی کے سوا ان کو کوئی اور معنی دئیے بغیر اور اللہ تعالیٰ سے ان کی نفی کیے بغیر ایمان رکھتے ہیں ۔ خطابی کا یہ فرمانا کہ ’’اور یہ طے ہے یا مسلم ہے کہ ہاتھ سے عضو نہیں مراد ہے کہ اس کے ثبوت سے انگلیوں کے ثبوت کا تصور کیا جائے‘‘ تو ان کی یہ بات حق اور باطل دونوں کا احتمال رکھتی ہے، یعنی:
Flag Counter