Maktaba Wahhabi

417 - 531
تینوں قسموں میں سے کوئی نہ کوئی حصہ محفوظ تھا۔ لیکن کسی کو یہ نہ معلوم تھا کہ کون صحابی کتنی تعداد میں قولی، یا فعلی یا تقریری حدیث اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے اور پھر ان میں شریعت کے کون کون سے امور بیان ہوئے ہیں ؟ ایسی صورت میں اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ کتنی تعداد میں حدیثیں ضبط تحریر میں لائی جا سکتی تھیں ، بلکہ اصل مسئلہ جریزۂ عرب اور اس سے باہر منتشر صحابہ کرام کے سینوں سے اس مقدس دفینے کو نکال کر اس کو صفحۂ قرطاس پر ثبت کرنا تھا اور اس وقت کے حالات میں ایسا کرنا جیسا کچھ دشوار تھا اس کا سمجھنا ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔ گیلانی نے قرآن پاک کی طرح حدیث کی کتابت کو اس قدر آسان اور سہل دکھانے اور اس زمانے میں ان چیزوں کے بکثرت اور وافر مقدار میں پائے جانے کا دعوی جو لکھنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں اس لیے کیا ہے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نیز اکابر صحابہ خود یہ نہیں چاہتے تھے کہ احادیث کو وہ تشریعی حیثیت حاصل ہونے پائے جو قرآن پاک کو حاصل ہے یا ان حدیثیوں کو جو ان کی نگاہ مریض میں دین کے احکام خاص یا بینات کی حامل ہیں ۔ گیلانی نے اپنے اس نقطہ نظر کو بیان کرنے کے لیے بڑا لمبا سفر طے کیاہے اور بڑے پینترے بدلے ہیں ، لیکن ان کے استاد اور محدث کبیر علامہ کشمیری نے یہ نظریہ دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ حدیث ضبط تحریر میں نہ لانے کا سبب کشمیری کی نظر میں : مولانا محمد انور شاہ کشمیری ہندوستان کے علمائے احناف میں ایک بہت بڑا نام ہیں ان کے القاب میں امام عصر اور محدث کبیر بھی شامل ہے اور برصغیر کے مشہور صوفی بزرگ مولانا اشرف علی تھانوی نے تو ان کے حق میں یہاں تک فرما دیا ہے کہ: ’’میرے نزدیک شیخ محمد انور کشمیری کا وجود ان دلائل میں سے ایک ہے کہ اسلام دین سماوی اور حق ہے۔‘‘[1] مولانا کشمیری مولانا گیلانی کے استاد حدیث اور مرشد روحانی تھے، حدیث کی شرعی حیثیت کے بارے میں گیلانی کے نظریات سامنے آ جانے کے بعد قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کون سی شخصیت کارفرما تھی، یوں تو گیلانی نے اس کتاب میں اپنے استاذ و مربی کے نظریۂ حدیث کی جانب اشارہ کر دیا ہے، پھر بھی ضرورت تھی کہ اس کو خود انہی کے الفاظ میں بیان کر دیا جائے ﴿لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ﴾ ’’تاکہ جو ہلاک ہو واضح دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے واضح دلیل سے زندہ رہے۔‘‘ وہ صحیح بخاری کی کتاب العلم کے باب کتابۃ العلم کے تحت اپنے قائم کردہ ذیلی عنوان: کتابۃ حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع حدیث اگرچہ بظاہر اور غور و تدبر کے بغیر بہتر تھی، مگر پسندیدہ بات یہ تھی کہ احادیث
Flag Counter