Maktaba Wahhabi

429 - 531
جہاں تک علامہ موصوف کا یہ دعوی ہے کہ قرآن کی طرح حدیث کو قلم بند کرنے سے اس لیے روک دیا گیا کہ حدیث کو دوسرا درجہ حاصل رہے تاکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش باقی رہے… تو عرض ہے کہ اس کا حدیث کی کتابت اور عدم کتابت سے کیا تعلق، اجتہاد کی گنجائش تو اس نص میں بھی ہوتی ہے جو اپنے حکم میں صریح الدلالۃ نہ ہو قطع نظر اس کے کہ اس نص کی نسبت صاحب نص سے ثابت ہے یا نہیں ، اسی وجہ سے قرآن پاک کی جو آیتیں اپنے احکام میں صریح نہیں ہیں ان میں بھی اجتہاد کیا جاتا ہے، جبکہ قرآن کے ازل اول تا آخر کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے!!! جہاں تک حدیث کی نصوص میں غور و خوض اور بحث و تحقیق کا معاملہ ہے تو اگر اس سے یہ مراد ہے کہ وحی الٰہی ہونے اور قرآن کی طرح منزل من اللہ ہونے ﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ﴾ کی وجہ سے احادیث میں مضمر اور پنہاں معارف و حکم اور معانی و مضامین کو سمجھنے کے لیے ان میں غوروتدبر ہر دور میں مطلوب رہے گا تو یہ برحق ہے اور کتاب اللہ کے حوالہ سے بھی مطلوب ہے اور قرآن خود اس کی بار بار دعوت دیتا ہے، لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کو ضبط تحریر میں لانے سے اس لیے منع فرما دیا تھا کہ اس طرح آپ اپنی امت کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ وہ آپ سے اس کی نسبت کو مشکوک اور غیر یقینی سمجھے اور تشریعی اعتبار سے اس کو دوسرا اور ثانوی درجہ دیتے ہوئے اس میں چھان پھٹک اور غوروخوض اور بحث و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھے کہ جس حدیث کو اپنے ذوق و پسند کے مطابق یا اپنے ائمہ کے اقوال و آراء سے ہم آہنگ پائے اس کو قبول کر لے اور جس کو اس کی کوتاہ بینی قرآن یا عقل کے خلاف پائے یا جو اس کے فقہاء کے من گھڑت اصولوں سے متصادم ہوتی ہو اس کو ٹھکرا دے جس کی مثالوں سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں تو یہ مردودہے اور ان کثیر آیات قرآنی کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے، اور ایساکہنے والا ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ نہ مقام رسالت کو سمجھ سکا ہے اور نہ اس کے دل میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، احترام اور تعظیم کا جذبہ ہی ہے۔ مقام عبرت: سطور بالا میں میں نے مولانا کشمیری کے نظریۂ حدیث کا قدرے تفصیل سے اس لیے جائزہ لیا ہے کہ ان کے مقام و مرتبے اور شہرت کے پیش نظر ان کے افکار و خیالات زیادہ اور دور رس نتائج کے حامل ہیں اور انہوں نے حدیث کی تشریعی حیثیت کو دوسرا اور ثانوی درجہ دینے کے لیے جو دعوے کیے ہیں وہ منکرین حدیث کے مزاعم سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہیں ، کیونکہ ’’امام عصر اور محدث کبیر‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کی باتوں کو علمی وزن دیا جاتا ہے اس لیے میں نے چاہا کہ اپنے قارئین کے سامنے حدیث کے مقام و مرتبے کو واضح کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی بیان کر دوں کہ صرف حق قابل احترام اور قابل پیروی ہے رہیں شخصیتیں تو ان کی عزت و احترام ان کی اتباع حق پر موقوف ہے تنہا کچھ بھی نہیں ۔ مولانا تھانوی نے مولانا کشمیری کو جو مقام دے رکھا تھا اس کا تقاضا ہے کہ میں ان کے افکار کے بیان کے بعد ایک
Flag Counter