Maktaba Wahhabi

431 - 531
کی دور از کار آراء کی روشنی میں کتاب و سنت کی نصوص میں تاویل نہ کی جائے، بلکہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ سے نکلنے والے معانی ہی پر ان کو محمول کیا جائے، صحابۂ کرام اسی طرح قرآن و حدیث کی نصوص کو سمجھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے بعد تمام محدثین بھی انہی کے طریقے پر گامزن رہے اور برصغیر کے جن علماء کو علمائے اہل حدیث کا نام ملا ان کا بھی یہی طریقہ رہا جس کی شاہد حدیث کی شرح و تفسیر سے متعلق ان کی کتابیں ہیں ۔ اس کے برعکس حنفی مسلک سے وابستہ علمائے حدیث ’’حب رسول‘‘ کے دعوی میں تو اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن وہ کسی بھی صحیح حدیث کو سن کر یا پڑھ کر اس طرز عمل کا اظہار نہیں کرتے کہ حکم الٰہی کے بموجب اس کے آگے سرتسلیم خم کر دیں ،[1] بلکہ سب سے پہلے اس کو اپنے مسلک کے ’’خراد‘‘ پر چڑھا کر اس کو مسلک سے ہم آہنگ بناتے ہیں ، اس کی تاویل کر کے اس کو عقل کے مطابق بناتے ہیں ، تاکہ ماتریدی متکلمین ناراض نہ ہوں ، اور پھر صوفیا کی خانقاہوں کا رخ کرتے ہیں کہ ان کے ’’علم باطن‘‘ میں اس حدیث کے کیا معنی متعین کیے گئے ہیں اور اگر کسی کو ’’وحدت الوجود‘‘ کے سب سے پہلے داعی محی الدین ابن عربی کی تحریفات کا خزانہ مل جائے تو پھر اس کی نصیب کا کیا کہنا۔‘‘ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے وہ امر واقعہ کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، کیا اس کے بعد بھی ایک ’’امام المجددین‘‘ کے شایان شان یہ کام تھا کہ وہ ایک مخلص اور صالح بزرگ کو اپنا مرید بنانے کے لیے اس پر شرط عائد کریں کہ وہ کسی حنفی عالم حدیث سے تحصیل حدیث کر کے اہل حدیث عالم سے حاصل ہونے والے علم کی تجدید و تصحیح کرے، پھر ان کی مریدی سے سرفراز ہو سکتا ہے۔ مولانا تھانوی نے تو صرف اتنا ہی کیا ہے رہے ان کے پیر اور روحانی پیشوا حاجی امداد اللہ ، تو انہوں نے تو برصغیر کے سارے اہل حدیثوں کو ’’دین کے راہزن‘‘ کے لقب سے نوازا ہے اور مولانا تھانوی نے ان کا یہ قول ان کے مناقب کے ضمن میں نقل کیا ہے۔[2] (فاعتبروا یا اولی الأبصار) تدوین حدیث: حفاظت حدیث سے متعلق گزشتہ صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بلند بانگ دعادی سے پاک خالص معروضی انداز میں حقائق کا بیان ہے، جن کو اگر کوئی تعصب اور ہٹ دھرمی کی عینک اتار کر سنجیدگی سے پڑھے گا تو مجھے پورا یقین ہے کہ اسے یہ تسلیم کرنے میں ادنی سا تأمل بھی نہ ہو گا کہ حفاظت قرآن اور حفاظت حدیث دونوں یکساں شکل میں اور یکساں اہمیت کے ساتھ انجام پائی ہیں اور جس طرح قرآن و حدیث کی تشریعی حیثیتوں میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی گئی، اسی طرح ان کی حفاظت اور ترویج کا فریضہ بھی ایک ہی جذبے اور احساس کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔ سابقہ سطور میں میں نے بنیادی طور پر چار افراد کے افکار و نظریات کا جائزہ لے کر ان کا رد کیا ہے جو یہ ہیں : محمود ابوریہ، ڈاکٹر افتخار برنی، مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری۔
Flag Counter