Maktaba Wahhabi

447 - 531
صحیح العقیدہ مسلمانوں کا بھی اختلاف نہیں ہے، بلاشبہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس کا لفظ لفظ منزل من اللہ ہے اور ہر تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے اور وہ ایسی اعجازی شان رکھتا ہے جس کی نقالی اور محاکاۃ انسانوں ، جنوں اور فرشتوں کی قدرت سے باہر ہے۔ لیکن بشری کلام ہونے کی وجہ سے حدیث کو نہ یہ اعجازی شان حاصل ہے کہ اس کی محاکاۃ نہ کی جا سکے اور نہ اس کو کلام الٰہی کا تقدس حاصل ہے، بایں ہمہ دونوں کی تشریعی حیثیتوں میں سرمو بھی فرق نہیں ہے اور دونوں میں یہ عدم فرق خود اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے۔ لہٰذا دونوں سے حاصل ہونے والے احکام میں درجات کے اعتبار سے تفریق کرنا حدیث سے پہلے قرآن کی تکذیب ہے۔ یہاں یہ واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے ناقابل تقلید ومحاکاۃ ہونے اور اپنے نزول کے وقت ہی قلم بند کیے جاتے رہنے کے باوجود ’’شاذ قرأتوں ‘‘ کا دروازہ بند نہ ہوا اس بات کو جاننے کے لیے ابن فالویہ کی کتاب ’’القراء ات الشاذہ‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہے، البتہ ’’مصحف عثمانی‘‘ کی قرأت کے علاوہ کسی اور قرأت کو رواج نہ مل سکا۔ دوہرا معیار: قارئین کرام کے علم میں یہ بات ہو گی اور اگر نہ ہو تو اس کو ان کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہر دور میں انکار حدیث کے فتنے کو انہی لوگوں میں برگ و بار لانے کا موقع ملا ہے جو ضرورت سے زیادہ عقلیت پسندی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور ان کی اکثریت شرعی علوم سے بے بہرہ ہے اور اگر ان میں کچھ لوگ تفسیر، حدیث اور فقہ سے تعلق رکھتے بھی رہے ہیں اور ان کا شمار علماء میں ہوتا بھی رہا ہے، تو ایک طرف تو وہ مسلکی اعتبار سے اپنے ائمہ کے اندھے مقلد رہے ہیں اور دوسری طرف قرآن کی تفسیر و تشریح میں آزاد خیالی ان کی شناخت رہی ہے اور حدیث کے متعلق ان سب کا متفقہ نقطۂ نظر یہ رہا ہے اور اب بھی ہے کہ شریعت کے جس ماخذ کا نام حدیث یا سنت ہے اس کی حفاظت کا کام مطلوبہ شکل میں انجام نہیں دیا گیا اور محدثین نے اس عمل میں بڑا ’’خون جگر‘‘ جلایا، پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت یقینی نہیں ظنی ہے۔ لیکن حدیث کے شرعی مقام کا انکار کرنے والوں اور شرعی ماخذ ہونے کے اعتبار سے اس کو ثانوی درجہ دینے والوں ، دونوں میں یہ بات مشترک رہی ہے کہ کسی مسئلہ میں صحیح حدیث کے ذکر سے تو ان کی پیشانیوں پر ناپسندیدگی کی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں ، لیکن ان کی تصنیفات میں قدیم عربی اشعار، محاوروں اور تعبیرات سے بہت زیادہ استدلال ملتا ہے، بعض تو قرآنی مطالب کی تشریح و توضیح میں قدیم آسمانی صحیفوں کے صفحے صفحے نقل کرتے چلے جاتے ہیں ، حتی کہ ان قرآنی آیتوں کی تفسیر میں بھی کلام عرب ہی ان کا بنیادی ماخذ ہوتا ہے یا وہ قرآن اور قدیم آسمانی صحیفوں میں مماثلت دکھانے کے لیے تورات و انجیل کی عبارتوں کا سہارا لیتے ہیں جن آیتوں میں احکام بیان ہوئے ہیں اور وہ شاذ و نادر ہی کسی حدیث کا ذکر
Flag Counter