Maktaba Wahhabi

466 - 531
سنت‘‘ کے زیر عنوان چند اصول بیان فرمائے ہیں جن کانام انہوں نے ’’رہنما اصول‘‘ دیا ہے ، یہ کل سات اصول ہیں جو اصلاحی صاحب ہی کی بحث و تحقیق کا چربہ ہیں ، یہاں میں ان کے ان دعوؤں کا کھوکھلا پن دکھاؤں گا جن کا میری اس بحث سے کسی نہ کسی درجے میں تعلق ہے ۔ خلط مبحث: حدیث اور سنت کے ایک ادنیٰ طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہو گی کہ کوئی بھی رسول اپنی امت کو صرف اللہ کی شریعت پہنچانے کا مکلف تھا ، وہ دنیوی امور کا رہنما بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا اور نہ اس کا یہ منصب تھا کہ وہ اپنی امت کے لوگوں کو اپنی ذاتی اور شخصی پسند و ناپسند کا پابند بنائے ، لہٰذا غامدی صاحب نے پہلا اصول بیان کرتے ہوئے سنت کے دائرے سے جن چیزوں کو خارج قرار دیا ہے وہ کوئی علمی انکشاف نہیں بلکہ خلط مبحث ہے اور جب ذکر معاملاتِ د نیوی کا آگیا ہے تو ازراہ تاکید شریعت کا یہ اصول بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ ’’خالص دنیوی امور جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے ‘‘ مباحات میں داخل ہیں ، فقہاء نے اس قاعدے کی تعبیر یوں کی ہے غیر عبادات میں اصل یہ ہے کہ مباح ہیں الا یہ کہ ان میں سے کسی کی بصراحت ’’نہی‘‘ وارد ہو اور عبادات اصلا ممنوع ہیں سوائے ان کے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے یا جن کو جائز قرار دیا گیا ہے اس بات کو زیادہ جامع اور مختصر لفظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں : دنیوی امور میں جو ممنوع نہیں وہ جائز ہے اور عبادات میں جو منصوص نہیں وہ ممنوع ہے ۔ غامدی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی پسند و ناپسند آپ کے لباس اور پہناوے اکل و شرب میں آپ کے ذوق ، اس وقت کے امکانات کے دائرہ میں مسجد نبوی کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان اور اس وقت کے ذرائع حمل و نقل کے ضمن میں اونٹوں پر سفر اور جنگوں میں تیر اور تلوار کے استعمال کی جو مثالیں دی ہیں اور ان کو ’’سنت‘‘ سے خارج قرار دیا ہے ان کوکوئی بھی سنت نہیں کہتا۔ اس اصول کے آغاز میں انہوں نے جو یہ فرمایا ہے کہ: سنت صرف وہی چیز ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو ‘‘ یہ بھی درست ہے کیونکہ سنت کا اطلاق جیسا کہ آگے آرہا ہے اس ہدایت پر ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل کی شکل میں ہمیں دی ہے اور کتاب اللہ جو کتاب ہدایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عملی تفسیر تھے ، جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے کہ سعد بن ہشام نے ان سے درخواست کی کہ : ((یا ام المومنین! انبئنی عن خلق رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قالت: الست تقرأ القرآن ؟ قلت : بلی قالت: فان خلق نبی اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم کان القرآن)) ’’اے ام المومنین ! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ فرمایا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔‘‘
Flag Counter