Maktaba Wahhabi

473 - 531
بھی ہیں ۔ اصلاحی صاحب نے اس سے ملتا جلتا ایک قول مکحول کے حوالہ سے نقل کیا ہے : (القرآن احوج الی السنۃ من السنۃ الی القرآن) [1] ’’سنت کے قرآن کی محتاج ہونے کی بہ نسبت قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے ۔‘‘ اس قول میں بھی کوئی غرابت نہیں ، مبالغہ تو دور کی بات ہے ۔ مکحول نے یہ بات قرآن کی تفہیم ، تفسیر اور تبیین کے سلسلے میں کہی ہے اور اصلاحی صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ : اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک سنت قرآن کی اتنی محتاج نہیں جتنا کہ قرآن سنت کا محتاج ہے ‘‘ صد فی صد درست ہے، لیکن ان کا یہ فرمانا: یہ صاف صاف ترجیح دینے کی بات ہے اور مبالغہ آمیز ہے ‘‘ ایک ہزار فیصد غلط ہے ۔ اصلاحی صاحب سے ایک سوال: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرما دیا ہے : ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْن﴾ (النحل :۴۴) ’’اور ہم نے تیری طرف یہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کے لیے اس چیز کو کھول کر بیان کر دے جو ان کی طرف نازل کئی گئی ہے اور تاکہ وہ غور و فکر کریں ‘‘ اس ارشادِ الٰہی کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں کیا قرآن کی تبیین داخل نہیں تھی، اور کیا آپ کی تبیین قرآن کا نام حدیث یا سنت نہیں ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کیا سنت قرآن کی محتاج ہوئی یا قرآن سنت کا اس سے قرآن پر حدیث یا سنت کو ترجیح دینے کا مفہوم کہاں سے نکل آیا؟ حدیث بیزاری احتیاط پسندی نہیں : میں یہ واضح کرتا آرہا ہوں کہ حدیث یا سنت نام ہے ان اقوال، افعال اور تقریروں کا جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور صحیح ہو، ایسی صورت میں کسی بھی مسلمان کے دل میں حدیث بیزاری یا سنت بیزاری کا جذبہ نہیں پیدا ہو سکتا ، کیونکہ اس کے دوسرے معنی رسول بیزاری کے ہیں ۔اس وضاحت کی روشنی میں حدیث بیزاری کی مذموم صفت سے موصوف افراد کو ’’محتاط لوگ‘‘ نہیں کہا جا سکتا ، بلکہ آغاز امر ہی سے یہ ان لوگوں کی صفت رہی ہے جو دل کے مریض تھے اور انہوں نے اپنے فاسد عقائد اور غلط افکار کی ترویج کی راہ میں حدیث کو مزاحم پا کر اس کے انکار یا اس کی غلط تاویل کی روش اختیار کی ۔
Flag Counter