Maktaba Wahhabi

482 - 531
دراصل تعقلون اور یعقلون قرآن پاک میں تفقھون ، یفقھون ، تتفکرون ، یتفکروں ، تتدبرون ، یتدبرون، اور تبصرون و یبصرون کی طرح استعمال ہوا ہے اور بعض آیات اور حقائق بیان کرنے کے بعد باطل پرستوں سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تم سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے یا لوگ سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے۔ قرآن پاک میں بطور ’’اسم‘‘ عقل کا استعمال نہیں ہے ، بلکہ فعل کے طور پر اس کا استعمال ہوا ہے، ہم جس کو عقل کہتے ہیں اس کے لیے قلب استعمال ہوا ہے جس کی جمع قلوب آتی ہے اور یہی قلب محل عقل ہے جس کے ذریعہ انسان سمجھتا ہے ، ارشاد الٰہی ہے : ﴿اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِے الصُّدُوْرِ﴾ (الحج ۴۶) ’’کیا لوگ زمین میں چلے پھر ے نہیں کہ ان کے لیے ایسے دل ہوتے ہیں جن سے وہ سمجھتے یا کان ہوتے جن سے یہ سنتے پس حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔‘‘ قرآن میں عقل یعقل اشیاء کی حقیقت پالینے ، سمجھ بوجھ سے کام لینے اور غور فکر کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، عقل کے مترادف ادراک ، بصیرت ، فہم، اصابت رائے اور وقار وغیرہ ہیں اور اس کی ضد بیوقوفی، حمق (حماقت) خبل (دیوانہ پن) سخافت (رائے کا کمزور ہونا اور سفاہت (نادانی ) وغیرہ ہیں ۔ عقل کی نا رسائی: عقل تنہا حق و باطل کا ادراک نہیں کر سکتی اور نہ ہدایت و گمراہی میں تمیز کر سکتی ہے ، ورنہ افلاطون اور ارسطو بت پرست نہ ہوتے اور ان کے وضع کردہ فلسفیانہ اصولوں پر چلنے والے معتزلہ ، متکلمین اور دوسرے فرقے توحید اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی عقلی تاویلیں کرکے راہ حق سے دور نہیں ہوتے ۔ بلاشبہ قرآن و حدیث کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان کی تمام باتوں کو عقل کی عدالت میں پیش کریں اور جب وہاں سے فیصلہ ہو جائے ، پھر ان کو قبول کریں ورنہ ان کو رد کردیں یا ان میں تاویل کریں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی ہر بات عقل کے مطابق ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب ہم قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں بیان کردہ حقائق ، احکام اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، اعمال کی جزا وسزا، جنت و جہنم کے احوال وغیرہ کو عقل کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی کی مخالفت نہیں کرتی ، اگرچہ وہ ان میں سے نہ تو ہر چیز کا ادراک رکھتی ہے اور نہ تو ہر ایک تک اس کی رسائی ہی ہے اس کو مثالوں سے سمجھئے: ۱۔ انسان اپنی تخلیق کے جن مراحل سے گزرتا ہے اور مرد کے صلب میں نطفہ سے لے کر رحم مادر میں مکمل انسان بننے تک جو احوال اس پر طاری ہوتے ہیں عقل انسانی ان میں سے کسی بھی چیز کا ادراک نہیں رکھتی، لیکن قرآن پاک
Flag Counter