Maktaba Wahhabi

488 - 531
بات فرمائی، پھر میں حذیفہ بن یمان کی خدمت میں گیا انہوں نے بھی اسی طرح کی بات فرمائی، پھر میں زید بن ثابت کی خدمت میں گیا تو انہوں نے مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح کی حدیث بیان کی ۔ ‘‘ اصلاحی کی بددیانتی: دیکھئے اصلاحی صاحب نے ایک حدیث کا مفہوم نقل کرنے میں کس بددیانتی سے کام لیا ہے ، منکرین حدیث یا حدیث سے پرخاش رکھنے والے یہی کرتے ہیں کہ جب کسی حدیث کو اپنے نظریہ یا عقیدہ کے خلاف پاتے ہیں تو اولا تو اس کو حدیث کہنے سے گریز کرتے ہیں ثانیا وہ اس کے مفہوم کو بدل کر اس کو اپنا ہم مطلب بنا لیتے ہیں تاکہ اس طرح اپنی بات میں وزن پیدا کر سکیں اور جب انہیں اپنی باتوں کو شرعی رنگ دینے کے لیے حدیثوں کی ضرورت پڑتی ہے تو صحیح و ضعیف حتی کہ موضوع روایات سے بھی ان کو استدلال کرنے میں پس و پیش نہیں ہوتا جس کی مثالیں آگے آرہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں : جس صحیح حدیث کا ، عقل کے دشمنوں کا قول کہہ کر اصلاحی صاحب نے مذاق اڑایا ہے ، وہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے خلاف ہے اور نہ سورہ قلم کی اس آیت کے جس سے انہوں نے بالکل غلط استدلال کیا ہے ، پھر حدیث میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ دو ٹوک الفاظ میں یہ ہے : اگر اللہ آسمان و زمین کی تمام مخلوق کو مبتلائے عذاب کر دے تو وہ ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا اور اگر وہ ان پر رحم فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہوگی ‘‘ قرآنی نصوص اور دوسری صحیح احادیث کی روشنی میں حدیث کے اس دوسرے فقرے کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں : اگر وہ ان پر رحم فرمائے تو یہ اس کا سراسر فضل ہو گا ان کے اعمال کا لازمی نتیجہ نہیں ‘‘ اصلاحی صاحب نے حدیث کے مذکورہ بالا ٹکڑے کی ترجمانی جن الفاظ میں کی ہے ، یعنی خداوند تعالیٰ اگر تمام نیکوں کو جہنم میں جھونک دے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر تمام بدوں کو جنت میں داخل کر دے تو یہ بھی ٹھیک ہے ‘‘ تو اس سے حدیث کے بارے میں ان کے خبث باطن کی ترجمانی ہوتی ہے ۔ حدیث میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ سراسر عادل ہے اور اس کی ذات ظلم کی صفت سے بالکل پاک ہے اس تناظر میں اگر اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ عدل سے کام لیتے ہوئے تمام بندوں کو مبتلائے عذاب کر دے تو وہ ان کے حق میں ظالم ہرگز نہیں ہوگا ، لیکن وہ اپنے فضل و کرم سے ایسا نہیں کرے گا ،کیونکہ اس نے اپنے فضل و رحمت کے بموجب اپنی ذات پر یہ فرض قرار دے دیا ہے کہ جو اپنے گناہوں سے تائب ہو جائے اور ایمان و عمل صالح سے جس کی زندگی مزین ہو وہ اس کو عذاب نہ دے ، بلکہ اس کو دائمی جنت میں داخل کرے، معلوم ہوا کہ کوئی بھی انسان محض اپنے اچھے اور نیک اعمال سے جنت میں داخل ہونے اور دوزخ سے نجات کا حق دار نہیں ہو جاتا، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل
Flag Counter