Maktaba Wahhabi

506 - 531
زندہ نہیں رہ سکتے ، لیکن اس بدیہی حقیقت کے باوجود کوئی بھی انسان ، قطع نظر اس کے کہ وہ عقل و فہم کے کس مقام پر ہے ؟ اس روح کے بارے میں معمولی علم بھی نہیں رکھتا ، تو کیا غیبیات کے ادراک سے عقل کی عاجزی کی اس سے بڑی کوئی دلیل ہو سکتی ہے ؟ فاعتبروا یا اولی الابصار اس بین اور ناقابل تردید حقیقت کے بعد عقل کو صحیح اور ضعیف حدیثوں میں تمیز کی کسوٹی اور معیار قرار دینا سب سے بڑی جہالت ہے ۔ عقل جس حدیث کے خلاف ہے : جن حدیثوں کی نسبت محدثین کے وضع کردہ قواعد و ضوابط اور اصولوں کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور جن کا اصطلاحی نام ’’صحیح حدیث ‘‘ ہے نہ وہ عقل کے خلاف ہیں اور نہ عقل ان کے خلاف ، لیکن ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہر صحیح حدیث کا مضمون و مدعا ہر کس و ناکس کی عقل کی گرفت میں آنا بھی ضروری ہے ، البتہ جو خوش نصیب افراد اپنی عمر مستعار کے بیشتر اوقات میں حدیث کے درس ومطالعہ میں مصروف رہے ہوں اور قرآنی مطالب ومعانی بھی ان کے ذہنوں میں مرتسم رہے ہوں اور وہ دین کے مزاج شناس بن گئے ہوں وہ صرف کسی حدیث کا متن دیکھ کر اور سن کر یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت صحیح ہے ، اس طرح کے لوگ ہرزمانے میں معدودے چند ہی رہے ہیں ۔ رہے ایسے لوگ جو علم الاسناد میں ماہر ہوں ،اور صحیح وضعیف حدیثوں میں تمیز کے جو قواعد و ضوابط محدثین نے وضع کیے ہیں وہ انکے ذہنوں میں ہمیشہ مستحضر رہتے ہوں اور ان کو تطبیق دینے پر قدرت حاصل ہو بایں ہمہ وہ صحیح اسلامی عقیدہ بھی رکھتے رہے ہوں وہ بھی کسی حدیث کی صحت و سقم کو معلوم کر سکتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد پہلی قسم کے لوگوں کے مقابلے میں ہرزمانے میں زیادہ رہی ہے ۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کو بنیاد بنا کر کوئی’’ بدنیت‘‘ اور بیمار دل اگر یہ اعتراض کرے کہ جب حدیث کی صحت و سقم کی معرفت ہر دور میں صرف معدودے چند افراد ہی کو حاصل تھی تو اس طرح تو حدیث ناقابل عمل ہے ، ایسے شخص کو جواب دیتے ہوئے میں عرض کروں گا کہ قرآن جس کی صفت خود اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کر دینے والی کتاب مبین بتائی ہے اس کے صحیح فہم سے موصوف تو خود صحابہ کرام میں بہت گنے چنے لوگ تھے ، لیکن اس سے عمومی ہدایت حاصل کرنے کی صلاحیت کم وبیش ہر صحابی کو حاصل تھی ، چاہے یہ براہ راست ہو یا بالواسطہ ، کیونکہ ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی تھیں اور آپ کی سیرت پاک بھی۔ صحابہ کے بعد کے ادوار میں قرآن سے عمومی ہدایت حاصل کرنے والے تو بہت زیادہ لوگ تھے ،لیکن اس کی صحیح تفسیر سمجھنے اور سمجھانے والے ہر دور میں انگلیوں پرگنے جا سکتے ہیں تو اگر یہ چیز قرآن کے کتاب ہدایت ہونے میں مانع نہیں ہو سکتی ، تو پھر حدیث کی صحت و سقم معلوم کرنے والوں کی تعداد میں کمی پر اعتراض کیوں ؟
Flag Counter