Maktaba Wahhabi

514 - 531
’’درحقیقت شیطان کی چال بڑی کمزور ہے ۔‘‘ عرش پر اللہ تعالیٰ کا علو اور بلندی ذاتی ہے یعنی وہ اپنی ذات کے ساتھ اس پر بلند ہے جبکہ بوطی نے آیت کے جس فقرے سے استدلال کیا ہے اس میں انسانوں سے اللہ تعالیٰ کے علم کا قرب بیان کیا گیا ہے ، اگر انہوں نے پوری آیت نقل کی ہوتی تو ان کی بدنیتی عیاں ہو جاتی اس لیے انہوں نے آیت کا آخری فقرہ نقل کرکے اس میں اور پہلی آیت میں اختلاف اور تضاد دکھانے کی مذموم حرکت کی ہے ، پوری آیت حسب ذیل ہے : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ﴾ (ق : ۱۶) ’’اور درحقیقت ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس خیال تک کو جانتے ہیں جو اس کا دل کرتا ہے اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘ اگر بوطی نے پوری آیت نقل کی ہوتی تو ان کو یہ ہرزہ سرائی کرنے کا موقع نہ ملتا، مگر برا ہو ذہنیتوں کے فتور کا !!! میں نے اوپر متکلمین کی فہم و نظر کے جو دو نمونے پیش کیے ہیں ان سے ان کے طرز فکر، غلط استدلال ، فکر و نظر کی سطحیت اور قرآن کے عدم فہم کو سمجھا جا سکتا ہے یہی تمام اہل کلام کا انداز ہے ، ڈاکٹر بوطی نے تو خیر مہذب اسلوب میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے ، فخرالدین رازی نے تو جن کے نام کے ساتھ لوگ ’’امام ‘‘ لکھتے ہیں اہل سنت وجماعت کے علماء کی تنقید کرتے ہوئے اخلاق و تہذیب کی ساری حدیں توڑ دیں ہیں ۔ سورہ ق کی زیر بحث آیت میں انسانوں سے اللہ تعالیٰ کے علم کا جو قرب بیان کیا گیا ہے اس کو سورہ طلاق کی آیت میں دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے : ﴿وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا﴾ (۱۲) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔‘‘ یعنی کوئی بھی چیز اس کے علم کے دائرے سے باہر نہیں ہے ، کیونکہ جب وہی پوری کائنات کا خالق اور رب ہے تو پھر کائنات کی کوئی بھی چیز اس کے احاطہ قدرت و علم سے باہر نہیں ہو سکتی، جبکہ اپنی ذات کے ساتھ وہ عرش پر بلند اور مستقر ہے ۔ ایک لطیفہ : اس سنجیدہ اور خشک بحث سے شاید قارئین اکتا گئے ہوں ، اس لیے رنگ بدلنے اور ان کے اندر نئی تازگی پیدا کرنے کے لیے متکلمین ہی کے حوالہ سے ایک لطیفہ بیان کر دینا چاہتا ہوں ۔ ابوالمعالی عبدالملک جوینی بہت بڑے شافعی متکلم ، فقیہ اور صوفی گزرے ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب : الشامل میں
Flag Counter