Maktaba Wahhabi

53 - 531
’’غور سے سن لو مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے، ایسا نہ ہونے پائے کہ کوئی آسودہ حال اور شکم سیر شخص اپنی مسند پر بیٹھ کر یہ بکواس کرے کہ تم صرف قرآن کی پیروی کو اپنے اوپر لازم ٹھہرالو؛ جو کچھ اس میں حلال پاؤ اسے حلال مانو اور جو کچھ اس میں حرام پاؤ اس کو حرام سمجھو، خبردار جو کچھ اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ اللہ کے حرام کرنے کی طرح ہے۔‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات اعجاز نبوی کے ترجمان ہیں اور ان میں ایسی باتوں کی پیشین گوئی ہے جو عہد نبوی میں محدود پیمانے پر اور بعد کے زمانے میں وسیع پیمانے پر ظہور پذیر ہوئیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ان میں کثرت اور ان کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ عہد نبوی کے منکرین حدیث، منافقین، پر بھی صادق آتا ہے وہیں وہ ہر عہد اور زمانے کے منکرین حدیث کے حالات، انداز فکر، طرز استدلال اور دعاوی کا بھی ترجمان ہے، ان ارشادات نبوی میں انکار حدیث کی صفت سے موصوف لوگوں کو آسودہ حال، شکم سیر اور مسند نشیں فرما کر دراصل ان کے غرور نفس، تکبر اور خود پسندی کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے ہر دور کے منکرین حدیث موصوف رہے ہیں اور آئندہ رہیں گے، کیونکہ اس طرح کے لوگ حدیث کے ماخذ شریعت ہونے کا انکار اس لیے کرتے ہیں کہ اس طرح ان کو قرآن کو بازیچۂ اطفال بنانے اور اس کو اپنی من مانی تاویلات کا نشانہ بنانے میں مدد ملتی ہے اور ان کی آسودہ حالی، تعیش پسندی اور مادی و معاشی بے فکری ان کو اس قابل بھی نہیں رہنے دیتی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے پر غور کرنے اور سوچنے کی زحمت کریں ۔ لیکن وہ باتیں اس انداز سے اور اس طرح کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہے۔ جب ہم سنت یا حدیث کا لفظ بولتے ہیں تو قولی حدیث ہونے کی صورت میں اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور فعلی اور تقریری حدیث کی صورت میں اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل یا سیرت یا تقریر و تصویب کو بیان کرنے والے صحابی سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ وضاحت کی روشنی میں کسی حدیث کی صحت اور عدم صحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابی سے اس کی نسبت کا علم حاصل کرنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہ علم اس علم پر موقوف ہے کہ صحابی کے بعد کے راوی اعتماد اور بھروسے کے قابل تھے یا نہیں ؟ رہے صحابی تو ان کی ثقاہت و عدالت پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ راویان حدیث کی ثقاہت و عدم ثقاہت جانچنے او رمعلوم کرنے کے لیے ائمہ حدیث نے علم جرح و تعدیل اور علم طبقات ایجاد کیا آئندہ صفحات میں میرا موضوع بحث علم طبقات ہوگا۔ علم طبقات: علم طبقات کے ایجاد کا مقصد جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے راویان حدیث کے مختلف ادوار اور طبقوں اور ان
Flag Counter