Maktaba Wahhabi

65 - 531
عبدالرحمن بن حمید بن عبد الرحمن بن عوف زہری متوفی ۱۳۷ھ مطابق ۵۴ء اور اسامہ بن زید لیثی متوفی ۱۵۳ھ مطابق ۷۰۰ء نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے ان سے حدیث سنی اور دوسروں سے بیان کی ہے اور یہ دونوں تبع تابعین سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سعید بن مسیب کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچی ہوئی ہے بطور نمونہ چند شاگردوں کے نام پیش کر رہا ہوں : ۱: عبد الکریم بن مالک جزری (متوفی ۱۲۷ھ مطابق ۷۴۴ء) ۲: عبد المجید بن سہل (تاریخ وفات نامعلوم) چھٹے طبقہ کے راویوں میں سے ہیں جن میں سے کسی راوی کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ ۳: عبید اللہ بن سلیمان عبدی (تاریخ وفات نامعلوم)۔ ساتویں طبقہ کے راوی ہیں جو مالک اور سفیان ثوری جیسے بڑے تبع تابعین کا طبقہ ہے جو ۷۶ھ مطابق ۶۹۵ء اور ۱۶۹ھ مطابق ۷۸۵ء کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ ۴: عثمان بن حکیم متوفی ۱۳۹ھ؟۔ ۷۵۶ء۔ ۵: عطاء خراسانی۔ عطاء بن ابی مسلم محدث (متوفی ۱۳۵ھ مطابق) ۶: عمرو بن شعیب (متوفی ۱۱۸ھ مطابق ۷۳۶ء) ۷: عمرو بن دینار (متوفی ۱۲۶ھ، ۷۴۳ء) ۸: عمرو بن مرہ (متوفی ۱۱۸ھ مطابق ۷۳۶ء) ۹: غیلان بن جریر (متوفی (۱۲۹ھ مطابق ۷۴۶ء) (۲) عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما : عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ۲۳ھ مطابق ۶۴۳ء میں پیدا ہوئے ان کے والد ماجد حواریٔ رسول اور یکے از عشرہ مبشرہ بالجنہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ او ر والدہ ماجدہ ذات النطاقین اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما اور خالہ حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں اور ان کی حقیقی تربیت ان کی خالہ ہی کے زیر سایہ ہوئی تھی جن کی خدمت میں رہ کر انھوں نے تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کیا تھا۔ اپنی کمسنی کے باعث عروہ نے اپنے والد ماجد سے تو بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں ، لیکن اپنی والدہ اسماء اور اپنی خالہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، نیز اسماء بنت عمیس، اُمّ حبیبہ اُمّ المومنین، اُمّ سلمہ اُمّ المومنین، ام ہانی، ام شریک (غزیہ) فاطمہ بنت قیس، ضباعہ بنت زبیر، بسرہ بنت صفوان، زینب بنت ابی سلمہ اور عمرہ انصاریہ رضی اللہ عنہن سے احادیث زیادہ روایت کی ہیں اور دراصل یہی جلیل القدر خواتین اسلام ان کے حقیقی شیوخ میں شمار ہوتی ہیں ۔ رہے وہ صحابہ کرام جن سے عروہ نے حدیثیں روایت کی ہیں ان کی فہرست صرف امام ذہبی کی سیر اعلام النبلاء میں ۱۰۰ کے لگ بھگ ہے جن میں سے چند کے نام ہیں :
Flag Counter