Maktaba Wahhabi

77 - 531
محمد بن اسماعیل بخاری، مسلم بن حجاج، ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی اور احمد بن شعیب نسائی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اوپر زہری کے شیوخ اور شاگردوں کی جو مختصر سی فہرست پیش کی گئی ہے اور پھر ان شاگردوں سے براہ راست اور بالواسطہ تحصیل علم کرنے والوں کا جو سرسری تذکرہ کیا گیا ہے اس سے اہل علم کی نظروں کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجانی چاہیے کہ پاسبان حدیث اور سنت نبوی کا یہ مقدس قافلہ زبان نبوت سے براہ راست شریعت اسلامی کے دوسرے ماخذ، حدیث کو اخذ کرنے والے صحابہ کرام سے لے کر حدیث کی امہات الکتب کے جلیل القدر اور عالی مقام مصنّفین تک اپنے سلسلۂ اخذ و عطاء اور تحمل وادا میں آپس میں جڑا ہوا ہے اور تین صدیوں پر پھیلی ہوئی ایسی کہکشاں کے مانند ہے جس کو تاریکیوں میں دیکھنے والے سپرا چشموں کے سوا نظر بینا رکھنے والا ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ انکار حدیث پر ایک طائرانہ نظر: انکار حدیث کا فتنہ بہت پرانا ہے، یہ فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے ظاہر ہونے والے گمراہ فرقے، خوارج اور شیعہ کے ساتھ ہی پیدا ہوگیا تھا اور چونکہ یہ دونوں فرقے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آپ کے ارشادات کے ناقل صحابہ کرام کے بارے میں وہ رائے اور نقطہ نظر نہیں رکھتے تھے جو رائے اور نقطہ نظر ان کے بارے میں دوسرے تمام مسلمانوں یا جمہور مسلمانوں کا ہے، لہٰذا صحابہ کرام ان کی نظر میں روایت حدیث میں ثقہ اور قابل بھروسہ نہ تھے اور جو علم ناقابل اعتماد ذریعہ سے حاصل ہو وہ علم شریعت نہیں ہوسکتا اس تناظر میں حدیث شرعی ماخذ نہ ہوئی۔ خوارج کا فرقہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والی جنگ صفین کے موقع پر اس وقت پیدا ہوا جب وہ اپنے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے دو آدمیوں کو حکم بنانے پر راضی ہوگئے اس طرح ان کی نظر میں غیر اللہ کو حکم بنانے والے تمام لوگ کافر ہوگئے، بعد میں اُن کے اس تکفیری حکم کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا اور جنگ جمل و صفین دونوں میں حصہ لینے والے حامیان علی اور حامیان معاویہ یعنی اہل کوفہ اور اہل شام دائرہ اسلام سے خارج اور گردن زدنی قرار پائے۔ مرور زمانہ کے ساتھ خوارج کا فرقہ ایک مستقل سیاسی اور دینی فرقہ بن گیا جس کے اپنے خاص عقائد تھے جو قرآن و حدیث سے ماخوذ عقائد سے مختلف تھے اور ان عقائد میں اعتدال یا شدت کے بموجب فرقہ خوارج متعدد فرقوں میں منقسم ہوگیا جن میں اباظیہ، ازارقہ، نجدات اور جعدیہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی خوارج کے عقائد پر بحث میرے موضوع سے خارج ہے، رہا حدیث کے بارے میں ان کا موقف اور نقطۂ نظر تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے جمل و صفین میں حصہ لینے والے اور ’’تحکیم‘‘ کو قبول کرنے والے تمام صحابہ کرام اور غیر صحابہ کی روایت کردہ حدیثوں کو رد کردیا، کیونکہ ان کے عقیدے کی رو سے یہ تمام لوگ کافر اور خارج از ملت ہوگئے تھے اور روایت حدیث میں عدالت و ثقاہت اسلام پر موقوف ہے، آگے چل کر اپنے غیر اسلامی عقائد سے ٹکرانے والی دوسری تمام حدیثوں کا بھی انھوں نے انکار کردیا۔
Flag Counter