Maktaba Wahhabi

95 - 531
لیکن امین احسن اصلاحی صاحب نے گولڈ زیہر کے برعکس ان کو ’’شیعہ‘‘ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ’’شیعیت‘‘ کی ترویج کے لیے بڑا کام کیا ہے۔ زہری پر لگائے گئے اصلاحی صاحب کے نمایاں الزامات حسب ذیل ہیں : ۱: وہ ادراج اور ارسال کے ماہر تھے۔ ۲: وہ اور ان کے شاگرد روایتیں گھڑ کر حدیث کے صحیح مجموعوں میں داخل کردیتے تھے۔ ۳: انھوں نے شیعیت کے فروغ کے لیے خاصا کام کیا ہے۔ ۴: انھوں نے ایسی حدیثیں روایت کی ہیں جن سے حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی کردار کشی ہوتی ہے۔ ادراج کی تعریف: امام زہری کی حدیثوں میں ادراج کے الزام کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے ادراج کی تعریف کردینا چاہتا ہوں ۔ ادراج کے لغوی معنی ہیں کسی چیز میں اس سے باہر کی کوئی چیز داخل کردینا۔ اور علم حدیث کی اصطلاح میں ادراج سند میں بھی ہوتا ہے اور حدیث کے متن اور عبارت میں بھی۔ سند میں ادراج: سند میں ادراج یہ ہے کہ دو مختلف سندوں سے مروی دو حدیثیں ، دونوں میں کسی راوی کے مشترک ہونے کی وجہ سے ان میں سے صرف ایک سند سے بیان کردی جائیں ، یا کسی حدیث کی سند میں کسی ایسے توضیحی لفظ کا اضافہ کردیا جائے جو ہو تو صحیح، مگر حدیث کے راوی نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ سند میں ادراج کی مثال: مشہور حدیث ((إنما الأعمال بالنیات۔)) (بخاری:۱) اور ((من اتقی الشبہات فقد استبرأ لدینہ۔)) [1]کے راوی سفیان بن عیینہ اور سفیان ثوری ہیں ، لیکن پہلی حدیث میں ان کے اوپر کے راوی دوسری حدیث میں ان کے اوپر کے راویوں سے مختلف ہیں ، مثلاً پہلی حدیث کی سند ہے: سفیان، عن یحییٰ بن سعید الانصاری، عن محمد بن ابراہیم التیمی، عن علقمہ بن وقاص اللیثی، عن عمر بن الخطاب، عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ اور دوسری حدیث کی سند ہے: سفیان بن عیینہ، عن ابی فروہ، عن الشعبی، عن النعمان بن بشیر، عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ اب اگر کوئی یہ دونوں حدیثیں پہلی سند سے روایت کردے تو اس کا یہ عمل سند میں ادراج شمار ہوگا، کیونکہ اس صورت میں وہ پہلی سند کو دوسری حدیث کی سند میں داخل کرنے کے علاوہ دونوں کو ایک ہی سند سے روایت کرنے کا بھی مرتکب ہوگا۔
Flag Counter