Maktaba Wahhabi

97 - 531
معیوب نہیں ہے۔ متن میں ادراج: متن میں ادراج یہ ہے کہ حدیث کی عبارت میں راوی اپنی طرف سے کوئی لفظ یا عبارت ایسی بڑھا دے جس کے آگے پیچھے کوئی ایسی علامت یا قرینہ چھوڑے جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ وہ مدرج لفظ یا عبارت حدیث کا حصہ نہیں ، بلکہ راوی کی اضافت کردہ ہے۔ جہاں تک امام زہری کی مرویات میں ادراج کا الزام ہے تو پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے اس طرح کا ادراج صرف دو یا تین حدیثوں میں کیا ہے اور وہ بھی سیرت پاک کی حدیثوں میں اور یہ بات اہل علم کو معلوم ہوگی کہ سیرت کی حدیثیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نہیں ، بلکہ صحابہ کرام کے اقوال سے عبارت ہیں جن میں انھوں نے آپ کی سیرت طیبہ کے واقعات آپ کی زبان مبارک سے سن کر بیان کیے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ جیسا کہ مثالوں سے معلوم ہوگا انھوں نے بعض ادراجات میں ایسی علامت چھوڑ دی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ادراج انھوں نے حدیث کے بعض الفاظ کی وضاحت اور بیان کے طور پر کیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ادراج کی تینوں مثالوں میں سے ایک کے بارے میں ائمہ حدیث کا اس امر پر اتفاق نہیں ہے کہ یہ ادراج انھوں نے کیا ہے یا ان کے اوپر کے راوی نے؟ میں نے ابھی جو دعوے کیے ہیں ان کی دلیل مثالوں میں ملاحظہ فرمائیں : (۱) پہلی مثال: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((حدثنا یحییٰ بن بکیر، قال: حدثنا اللیث، عن عقیل، عن ابن شہاب، عن عروۃ بن الزبیر، عن عائشۃ أم المؤمنین أنھا قالت: اول ما بدیٔ بہ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم، فکان لا یری رؤیا الاجائت مثل فلق الصبح، ثم حببب إلیہ الخلاء، وکان یخلو بغار حراء فیتحنت فیہ -وہو التعبد- اللیالی ذوات العدد۔))[1] ’’ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا: ہم سے لیث نے، عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا پہلے پہل نیند میں اچھے خوابوں سے ہوئی، آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی طرح ہوتا، پھر آپ کو تنہائی محبوب ہوگئی، اور آپ غار حرا میں کئی کئی راتیں تحنث -اور وہ تعبد
Flag Counter