Maktaba Wahhabi

115 - 358
زمانے میں جن بعض صحابہ یا صحابیہ سے زنا کا جرم صادر ہوا تو ان کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے رجم کی سزا دی گئی، حالانکہ انھوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر از خود اعترافِ جرم اور سزا کے ذریعے سے پاک ہونے پر اصرار کیا تھا۔ اگر یہ سزا محاربہ کی سزا، یا آیتِ محاربہ کا اقتضا ہوتی تو {اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ} [المائدۃ: ۳۴] ’’مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پاؤ۔‘‘ کے تحت وہ سزا کے نہیں، معافی کے مستحق تھے، کیوں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں نہ کوئی فساد مچا تھا اور نہ ان کو پکڑ کر ہی لایا گیا تھا۔ جب یہ دونوں ہی باتیں ان میں نہیں پائی گئیں تو محاربہ کی سزا تو خود آیتِ محاربہ کے خلاف ہے، انھیں محاربہ کی سزا کیوں دی گئی؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اﷲ پر بھی افترا اور صحابہ و صحابیات پر بھی افترا: اب اپنی طرف سے یہ بات گھڑنا، جب کہ عہدِ رسالت کے واقعات میں دور دور تک اس کے نشانات نہیں ملتے کہ یہ سزا (نعوذ باللّٰه ) ان کی اوباشی اور آوارہ منشی کی وجہ سے دی گئی، یکسر بے بنیاد بات ہے۔ ان واقعات میں صرف ان کا شادی شدہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے، جو دیدۂ بینا رکھنے والے ’’دیدہ وروں‘‘ کو نظر نہیں آرہی ہے اور اوباشی اور آوارہ منشی والی بات، جو خُرد بین لگا کر بھی دیکھنے سے نظر نہیں آتی، اس کو اس سزا کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کیسی ہٹ دھرمی اور دھاندلی کا مظاہرہ ہے، جس کا ارتکاب نہایت بے شرمی اور حددرجہ بے باکی سے کیا جا رہا ہے، جیسے: آوارہ منشی والی ’’وحیِ خفی‘‘ حمید الدین فراہی پر نازل ہوئی تھی، وہاں سے اصلاحی صاحب کو اور پھر غامدی صاحب کو منتقل ہوئی، کیوں کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ’’وحیِ خفی‘‘ نازل ہوئی ہوتی تو آپ اس کی وضاحت فرماتے، لیکن کسی بھی حدیث میں اس
Flag Counter