Maktaba Wahhabi

132 - 358
جس سے ہمارا سر رشتہ احادیثِ رسول سے کٹ جائے، سنتِ خلفائے راشدین سے کٹ جائے اور ہماری راہ اُمتِ مسلمہ کے جادۂ مستقیم سے ہٹ جائے۔ مغالطات، تضادات اور بلا دلیل دعوے: الحمد ﷲ گذشتہ مباحث سے واضح ہوگیا کہ حدیث و سنت کے معاملے میں مفہوم و مطلب سے لے کر اس کی حجیت تک فراہی نظریہ ائمۂ سلف سے یکسر مختلف ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک حدیث و سنت ہم معنی الفاظ ہیں۔ حدیث کہو یا سنت، دونوں سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال اور تقریرات ہیں۔ یہ دین میں حجت ہیں، ان سے قرآن کے عموم کی تخصیص جائز ہے، یہ قرآن کی وہ تبیین ہے، جس کا حکم اﷲ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت: {وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} [النحل: ۴۴] ’’اور ہم نے تیری طرف یہ نصیحت اُتاری، تاکہ تو لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دے، جو کچھ ان کی طرف اُتارا گیا ہے۔‘‘ میں دیا اور اس کے مطابق آپ نے ایسے کئی احکام بیان فرمائے جو قرآن میں نہیں ہیں۔ صحابۂ کرام نے ان کو تسلیم کیا اور آج تک وہ مسلّم چلے آرہے ہیں۔ یہ مباحث علمی دلائل کے ساتھ پچھلے صفحات میں گزر چکے ہیں۔ ان میں بعض جگہ قارئین تکرار بھی محسوس کریں گے، لیکن تشریح و توضیح اور غامدی صاحب کی رنگ بدل بدل کر یا پینترا بدل بدل کر سخن سازی کی نوعیت و حقیقت واضح کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔ اب ہم اگلے صفحات میں، ان کے دامِ ہم رنگ زمین کا شکار ہونے والے خام ذہن لوگوں کے لیے، ان کے چند تضادات، مغالطات اور بلا دلیل دعوؤں کی وضاحت کریں گے، تاکہ اﷲ تعالیٰ اگر ان کو سوچنے سمجھنے کی توفیق دے تو وہ ان صاحب کی اصل شخصیت اور روپ بہروپ کو اصل شکل میں دیکھ سکیں۔
Flag Counter