Maktaba Wahhabi

146 - 358
گرگٹ کی طرح حالات و ضرورت کے مطابق رنگ اور بھیس بدلنا: 9 علمائے اسلام کا رویہ اور طرزِ استدلال دیکھ لیا کہ وہ تمام احادیث کو دیکھتے اور ان سے بحیثیتِ مجموعی جو بات ثابت ہوتی ہے، اس کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کو جمع و تطبیق کہا جاتا ہے، اس سے روایات کا ظاہری تعارض بھی دور ہوجاتا ہے اور مسئلے کے سارے پہلو بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ علمائے اسلام اس طرح کے ظاہری تعارض کو باہم متناقض ثابت کر کے احادیث کو ردّ نہیں کرتے، بلکہ ان کا معقول حل اور محمل تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس منکرینِ حدیث اس قسم کے ظاہری تعارض کو دیکھ کر بڑا خوش ہوتے اور ان کو باہم متناقض قرار دے کر یا تو ساری متعلقہ احادیث کو ردّ کر دیتے ہیں، جیسے رجم کی مستند اور متفق علیہ روایات کو ردّ کر دیا گیا یا پھر ان سے کوئی غلط مسئلہ نکال لیتے ہیں، دراں حالیکہ ان سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا۔ اس کی مثال خود غامدی صاحب کی ’’میزان‘‘ سے ملاحظہ فرمائیں: ’’چوتھی چیز یہ ہے کہ کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اس باب کی تمام روایات پیشِ نظر رکھی جائیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے، لیکن اسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال تصویر سے متعلق روایتیں ہیں۔ ان میں سے بعض کو دیکھیے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی تصاویر ممنوع قرار دی گئی ہیں، لیکن تمام روایتیں جمع کیجیے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ممانعت کا حکم صرف ان تصویروں کے بارے میں ہے، جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہوں۔ حدیث کے ذخیرے سے اس طرح
Flag Counter