البتہ عام لوگوں کے لیے شریعت کا قانون یہ ہے کہ جو اپنی بیوی کے علاوہ کسی مرد یا عورت پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے اور وہ چار گواہ پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے تو الزام لگانے والا ایک ہو یا ایک سے زیادہ دو یا تین ہوں (چار پورے نہ ہوں) تو سب قذف کی سزا (اسّی، اسّی کوڑوں) کے مستحق ہوں گے۔ چناں چہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیا اور الزام لگانے والوں نے چار گواہ بھی پیش کر دیے، لیکن تین گواہوں نے تو گواہی دے دی، چوتھے گواہ نے صراحتاً زناکاری کی گواہی دینے سے انکار کر دیا، صرف یہ کہا: میں نے امرِ قبیح تو ضرور دیکھا، لیکن اصل کام ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سیدنا عمر نے اﷲ اکبر کہا اور اﷲ کی حمد بیان کی (کہ اﷲ نے سیدنا مغیرہ کو زنا کی سزا سے بچا لیا) اور باقی تینوں گواہوں پر قذف کی حد جاری کی۔[1] لعان کے بعد بچہ صحیح النسب نہیں مانا جائے گا: لعان کے نتیجے میں صرف میاں بیوی کے درمیان ہی جدائی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے بعد پیدا ہونے والا بچہ بھی صحیح النسب نہیں مانا جائے گا اور وہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ اس سلسلے میں عمار صاحب لکھتے ہیں: ’’لعان کا دوسرا قانونی اثر یہ مرتب ہوگا کہ عورت جس بچے کو جنم دے گی، اس کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔ اس آخری نکتے کے حوالے سے دورِ جدید میں یہ اجتہادی بحث شروع ہوگئی ہے کہ اگر جدید طبی ذرائع کی مدد سے بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو اور عورت یہ مطالبہ کرے کہ اس پر زنا کا الزام جھوٹا ہے، اس لیے سائنسی ذرائع سے تحقیق کرنے کے بعد اگر ثابت ہوجائے کہ بچہ اس کے شوہر |
Book Name | فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ |
Writer | حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ |
Publisher | دار أبي الطیب للنشر والتوزیع |
Publish Year | جولائی 2015ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 358 |
Introduction |