Maktaba Wahhabi

283 - 358
تھا؟ صحابہ کی یا کسی ایک صحابی کی وضاحت دکھلا دیں کہ انھوں نے یا اس صحابی نے کہا ہو کہ ہم مرد و عورت کی دیت میں یہ فرق اپنے عرف کے مطابق اس لیے کر رہے ہیں کہ قرآن میں اس مسئلے میں ہمیں معروف کے مطابق کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ جب تک ان دونوں سوالوں کی وضاحت ہمارے سامنے نہیں آجاتی، ہمارے نزدیک یہ قرآن پر بھی اتہام ہے اور صحابۂ کرام پر بھی، اور یہ جراَت رندانہ اس گروہ میں کیوں پیدا ہوئی؟ محض مسلّمات اسلامیہ کے انکار کے ’’شوقِ فضول‘‘ کی ’’برکت‘‘ سے، قرآن کو بازیچۂ اطفال بنانے کی فن کارانہ مہارت کے نتیجے میں اور شاطرانہ استدلال کی بازی گری میں طاق ہونے کی وجہ سے۔ أعاذنا اللّٰه منھا۔ عمار صاحب کا اپنا مغالطہ یا مغالطہ دینے کی کوشش: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید عمار صاحب کو دیت ادا کرنے میں معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کے پیشوں کے اعتبار سے شریعت میں سو اونٹ کے متبادل چیزوں کی رخصت یا سہولت دی گئی ہے، اس سے مغالطہ لگا ہے کہ یہ عرف یا اجتہادی مسئلہ ہے۔ جب کہ اس کا عرف یا اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے یا مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے اس مغالطہ انگیزی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کی نوعیت کو واضح کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ دیت ادا کرنے میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ دیت کس طرح، یا کس چیز سے ادا کی جائے؟ اس کو فقہا نے ’’اصولِ دیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی وہ چیزیں جن سے دیت ادا کرنا جائز ہے۔ وہ بعض ائمہ کے نزدیک پانچ، بعض کے نزدیک چھے اور مالکیہ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک تین ہیں اور وہ ہیں اونٹ، سونا اور چاندی۔ صاحبین کے نزدیک پانچ، یعنی گائے اور بکریاں بھی ہیں۔
Flag Counter