Maktaba Wahhabi

294 - 358
رائے کے مطابق اور اس اعتبار سے اجماعِ امت کی مظہر ہے، وہ تو غلط اور ناقابلِ تسلیم ہے، لیکن قصاص و دیت کے بارے میں اس کا فیصلہ ان کے لیے قابلِ قبول اور معتبر ہے، جس پر علمائے اسلام کا اتفاق ہی نہیں ہے اور جس وقت اس کو نافذ کیا گیا تھا، متعدد علما نے اس وقت مرد و عورت کی دیت (قتلِ خطا میں) نصف قرار نہ دینے کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ راقم نے بھی اس دَور میں قصاص و دیت کے قانون کی زیرِ بحث دفعہ کے خلاف ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں ایک مضمون لکھا تھا، اور بھی بعض علما نے لکھا تھا۔ یوں یہ قانونِ قصاص و دیت اس وقت زیرِ بحث و تنقید رہا۔ عورت کی نصف دیت کے بارے میں چند ضروری وضاحتیں: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب جب یہ مسئلہ پھر ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر آگیا ہے تو مسئلے کی اصل نوعیت، اس کی حکمت اور اس کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شبہات کی وضاحت کر دی جائے، تاکہ علمائے اسلام کے اجماعی موقف کی حقانیت و صداقت مزید واضح ہوجائے۔ مسئلے کی نوعیت: مختصراً مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ بطورِ غلطی اگر کوئی مسلمان عورت قتل ہوجائے تو اس کی دیت مرد سے نصف ہوگی۔ قتلِ عمد کا حکم اس سے مختلف ہے اور اس میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں اولاً قصاص ہے، اگر قصاص کے بجائے دیت پر مصالحت ہوجائے تو پوری دیت ادا کرنا ضروری ہو گا۔ شرعی دلائل: یہ فرق کیوں ہے؟ اس کے شرعی دلائل گزر چکے ہیں۔ اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter