Maktaba Wahhabi

80 - 358
واقعاتِ رجم کو دیکھ لیجیے! کسی واقعے میں بھی آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ یہ تفتیش و تحقیق کی گئی ہو کہ زنا کا ارتکاب کرنے والا مرد یا عورت قحبہ (زنا کی عادی مجرم، پیشہ ور زانی) اور غنڈہ، اوباش (زنا کا عادی مجرم) ہے؟ صرف اس امر کی تحقیق کی گئی کہ مجرم کنوارا ہے یا شادی شدہ۔ اس کے مطابق کوڑوں کی (غیر شادی شدہ کو) یا رجم کی (اگر وہ شادی شدہ ہوتا یا ہوتی) سزا دی گئی۔ فراہی گروہ کی جراَت رندانہ یا شوخ چشمانہ جسارت: اب یہ کہنا کہ سزائے رجم الفاظِ قرآن کی دلالت سے ثابت نہیں ہوتی اور ایسا کوئی استنباط یا استدلال جس کے الفاظِ قرآن متحمل نہ ہوں، قطعاً جائز نہیں ہے، حتی کہ پیغمبر بھی ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے اور پیغمبر کا یہ فعل تبیینِ قرآنی میں نہیں آتا، بلکہ یہ (نعوذ باللّٰه ) قرآن میں تغیر و تبدل ہے جس کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ یہ فراہی، غامدی یا اصلاحی گروہ کا موقف ہے، جس کی رُو سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کی حد نافذ کرنا اور اسے اﷲ کا حکم قرار دینا، قرآن کے خلاف اور اس سے تجاوز ہے۔ اسی طرح خلفائے راشدین سمیت پوری امت کے علما و فقہا، ائمہ و محدثین، جو شادی شدہ زانی کی حد ’’سزائے رجم‘‘ سمجھتے آئے ہیں، غلط ہیں، نہ انھوں نے قرآن کو سمجھا ہے اور نہ اس سے متعلقہ حدیثی روایات کو۔ اس رجم کی حقیقت کو ۱۴ سو سال بعد اگر کسی نے سمجھا ہے تو سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی ہیں، جن کی ولادت ۱۸۶۳ء اور وفات ۱۹۳۰ء میں بھارت میں ہوئی اور دیدہ دلیری کی انتہا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس سزائے رجم کا ماخذ قرآن سے تلاش کیا ہے۔ یعنی قرآن اﷲ کے پیغمبر پر نازل ہوا، لیکن پیغمبر بھی یہ نہ سمجھ سکا
Flag Counter