یہ جب پیے گا تو مدہوش ہوگا اور مدہوش ہوگا تو بکواس کرے گا اور بکواس کرے گا تو دوسروں پر جھوٹی تہمتیں بھی لگائے گا۔‘‘[1] ابن رشد کا یہ اقتباس نقل کر کے غامدی صاحب فرماتے ہیں: ’’اس سے واضح ہے کہ یہ (سزا) ہرگز شریعت نہیں ہوسکتی۔ اس زمین پر قیامت تک کے لیے یہ حق صرف محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں اور جب ان کی طرف سے کوئی چیز شریعت قرار پا جائے تو پھر صدیق و فاروق بھی اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کر سکتے۔ یہ (سزا) اگر شریعت ہوتی تو نہ سیدنا صدیق اسے چالیس کوڑوں میں تبدیل کرتے اور نہ سیدنا فاروق ان چالیس کو اسّی میں بدلتے۔ اس صورت میں یہ حق ان میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں تھا ۔۔۔ چناں چہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ہے، بلکہ محض تعزیر ہے، جسے مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی (حکمران)، اگر چاہے تو برقرار رکھ سکتا ہے اور چاہے تو اپنے حالات کے لحظ سے اس میں تغیر و تبدل کر سکتا ہے۔‘‘[2] شراب نوشی کی سزا ’’چالیس کوڑے‘‘ حدِ شرعی ہے: اس پورے اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرابی کو صرف زد و کوب کیا گیا ہے، کوڑے نہیں مارے گئے۔ سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ۴۰ کوڑے مارے، پھر حضرت عمر نے ۴۰ کو اسی کوڑوں میں تبدیل کر دیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ شراب نوشی کی حد چالیس کوڑے نہیں ہے، |
Book Name | فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ |
Writer | حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ |
Publisher | دار أبي الطیب للنشر والتوزیع |
Publish Year | جولائی 2015ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 358 |
Introduction |