Maktaba Wahhabi

91 - 358
کی ضرورت محسوس کی جائے تو اسّی کوڑے بھی مارے جا سکتے ہیں اور یہ بھی سنت ہی ہوں گے۔ انکارِ حدیث کا مطلب اور فراہی گروہ کی حیثیت: اس تفصیل سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ حدیث کے بارے میں ان کے موقف اور ائمۂ سلف کے موقف میں بال برابر بھی فرق نہیں، سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ ائمۂ سلف کا شیوہ یہ کبھی نہیں رہا کہ وہ پہلے اپنے طور پر ایک نظریہ گھڑیں، پھر اس کی تائید میں کیسی بھی روایت مل جائے، چاہے وہ یکسر ضعیف ہی ہو، وہ اس کو قبول کر لیں اور جو ان کے خود ساختہ نظریے کے خلاف ہو، اس کو ردّ کر دیں۔ یہ رویہ ان کا نہیں، منکرینِ حدیث کا ہے۔ جن کو منکرینِ حدیث کہا اور قرار دیا جاتا ہے، یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث کو بالکل نہیں مانتے، ان کی کتابیں دیکھ لیجیے، وہ بھی احادیث سے استدلال کرتے اور ان کو پیش کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو منکرینِ حدیث سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس کی تین وجوہ ہیں: 1 وہ حدیث کو ماخذِ شریعت نہیں سمجھتے اور وہ اس کی تشریعی حیثیت کے منکر ہیں۔ 2 وہ حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلاتے اور اُن کی عدمِ محفوظیت کے دعوے کرتے ہیں۔ 3 حسبِ ضرورت وہ ہر گری پڑی روایت کو تو اپنا لیتے ہیں کہ ان سے ان کے خود ساختہ نظریات کو کچھ سہارا میسر آجاتا ہے، لیکن صحیح روایات کو وہ پرِکاہ کے برابر بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جیسے غامدی صاحب نے ’’بدایۃ المجتھد‘‘ کے حوالے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا جو اثر نقل کیا ہے، وہ معضل (منقطع) ہے اور منکر بھی ہے، اس کے معنی میں بھی نکارت
Flag Counter