Maktaba Wahhabi

4 - 76
اسکے بعد انکار حدیث کاایک دوسرادور سرسید احمد خان سے شروع ہوتاہے ،ہندوستان میں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی توسرسید احمد خان اسکی حکومت کومضبوط کرنے کیلئے کمر بستہ ہوگئے جس کے لئے انھوں نے ایک نہایت خوبصورت نظریہ یہ پیش کیاکہ ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کامقابلہ اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک کہ انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے اسی اثناء میں انھوں نے انجیل کی شرح لکھی جس کا نام’’ تبیین الکلام‘‘ رکھاگیاجس میں اسلام اورعیسائیت کو ایک دین ثابت کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی گئی اورایک مجمع علمی قائم کیاجس کا کام انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کرناتھااس کے علاوہ انھوں نے انگریزوں کے کھانوں کی حلت میں ایک کتاب بھی لکھی چناچہ ان تمام خدمات کے صلہ میں انگریزوں نے انھیں ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیامذیدبرآں انگریزی تعلیم کے فروغ کے لئے انھوں نے علی گڑھ میں ایک مدرسہ بھی قائم کیاجس کانام وکٹوریہ رکھاگیااس پرانگریزوں نے انھیں ’’ہندوستان کاستارہ ‘‘تمغہ دیا ان کارہن سہن انگریزوں جیساتھااوروہ اپنے گھرمیں انگریزی طرز کے کھانے کھایاکرتے تھے انھوں نے قرآن کی من مانی تفسیر کی مثلاً قرآن میں قرآن کی طرف سے مخالفین کودیئے گئے چیلنج کی یہ تفسیر کی کہ اس سے مراد بلاغت میں قرآن کی مثال بنانانہیں بلکہ اس سے مراد یہ چیلنج ہے کہ ایسی کتاب لاؤ جو ہدایت دینے میں قرآن کی مثال ہو اورانھوں نے کہاکہ قرآن میں جس جنت اورجہنم کا تذکرہ ہے وہ ظاہر میں کہیں موجودنہیں بلکہ اس سے مراد انسانی فہم وفراست میں آرام و سکون اورتکلیف مراد ہے بحوالہ نزھۃ الخواطر ص۳۰ ج۸۔ اورماضی قریب میں سرسید احمد خان کی روحانی اولاد کے طورپر جو شخص نمودارہوا وہ لاہور پاکستان کا ایک شخص غلام احمد پرویز ہے، اس شخص نے انہیں مذکورہ منکرین حدیث کے مذہب اوردین کوجاری رکھنے کیلئے پوری زندگی کھپادی اس نے مختلف کتابیں تالیف کیں جن میں لغات القرآن ،مفہوم القرآ ن ،آدم وابلیس اورمسئلہ تقدیر قابل ذکرہیں،اس نے جنات کے وجود کاانکارکیااورشیطان وابلیس کوانسانی جذبات و تخیلات سے تعبیرکیااس اعتبارسے انسانوں سے علیحدہ اورانسانی نفس وجان سے باہر شیطان وابلیس کا اس کے مذہب میں کوئی وجودنہیں ہے اوراس نے لکھاہے کہ سلیمان علیہ السلام کے کام کرنیوالے جنات دراصل دیہاتی انسان تھے جو شہروں سے دوررہنے اورشہری لوگوں کی انکھوں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے جنات کہلائے ۔
Flag Counter