Maktaba Wahhabi

26 - 112
’’پس کردیا جائے گا وہ( ابو طالب )آگ کے پایاب چشمے میں اور آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھولے گا ۔‘‘ یعنی ابو طالب کواس کے ٹخنوں تک آگ پہنچے گی جس سے اسکا دماغ کھولے گا۔ استغفار تو یہ ہے کہ معاف کردیا جائے یہاں تو کسی قسم کی معافی کا کوئی سوال ہی نہیں انکو ٹخنوں تک عذاب کیوں دیا جائے گااس کا جواب یہ ہے کہ جرم جتنا بڑا ہوگا اس کی سزا اتنی ہی سخت ہوگی ابوطالب نے پوری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کی یعنی ابو جہل، ابو لہب کے مقابلے میں انکا جرم کم تھالہٰذا جتنا جرم اتنی سزا۔مصنف کا اعتراض اس وقت صحیح ہوتا کہ جب ابو طالب کو معاف کردیا جاتالیکن ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ آگ ہی میں رہے گا۔ اگر مصنف اس سزا کو معافی پر محمول کرتا ہے تو میرا مصنف سے سوال ہے کہ کیا وہ ان آگ کی جوتیوں کے لئے تیار ہے ؟(ویسے حرکتیں تو اسکی یہی ثابت کررہی ہیں )لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔ اعتراض نمبر 8:۔ مصنف اپنی جہالت اور بدنیتی کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 24پر صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کرتا ہوا معترض ہے۔ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے: ’’اے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ زندہ کرنے کے دن میں تجھ کو ذلیل نہ کرونگا چنانچہ اس سے بڑی ذلت اورکیا ہوگی کہ میرا باپ جہنم میں چلاجائے ۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء474 ) آگے رقمطراز ہے : قرآن میں عدم بصیرت کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو امام بخاری نے اللہ کا وعدہ بنادیا حالانکہ قرآن میں کتناصاف لکھا ہوا ہے کہ خلیل اللہ نے دنیا ہی میں اپنے باپ سے برأت کا اعلان کردیا تھا تو قیامت میں کیسے کہہ سکتے تھے۔ جواب:۔ قارئین کرام اس مسئلہ میں دو باتیں ہیں اول یہ کہ مصنف کا فہم اللہ نے سلب کرلیا ہے اور وہ احادیث کو
Flag Counter