Maktaba Wahhabi

96 - 112
کرنا‘‘(مائدہ 110؍5) وغیرہ۔ حالانکہ قرآن کریم تو وضاحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے۔ ’’ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِـیْ وَیُمِیْتُ ‘‘ (بقرۃ 2؍258) ’میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ ‘‘ آیت مبارکہ سے زندہ کرنا اور مارنا اللہ تعالیٰ کی صفت ثابت ہوتی ہے یعنی یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن دوسرے مقام پر عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟اس کا جواب وہی ہوگا جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ہے کہ یہ بھی معجزہ ہے اور معجزہ ہوتا ہی اللہ کے حکم سے ہے تو لہٰذا یہ معجزہ منشاء الٰہی سے ہونا قرار پاتا ہے اسے کسی بھی طریقے سے عمومی حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ رہی بات مصنف کے اس قول کی کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مقتدیوں کے)دلوں میں بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔ قارئین کرام یہ محض افتراء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر جھوٹ ہے اس حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کو بھی دیکھ رہے تھے ایسے لوگوں کے لئے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ فی النار۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم رقم الحدیث110) ’جس نے میری طرف جھوٹی بات منسوب کی جو میں نے نہ کہی اسے چاہیے اپنا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنالے۔ ‘‘ لہٰذا حدیث قرآن کے خلاف کسی طرح بھی نہیں۔ (الحمد للہ ) اعتراض نمبر 40:۔ قرآن مقدس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش اور محنت ومنت کے باوجود ابو طالب کفر پر اڑا رہا۔ ۔۔۔۔۔لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ ابوطالب جو کفرِ قبیح پر مرا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اگر چہ ایمان نہیں لایا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے عذاب کبیر سے بچالیا گیا۔ ۔۔۔۔ فرمایا میری وجہ سے آگ کے چشمہ میں ٹخنوں تک ہے ورنہ ’’د رک الاسفل میں ہوتا۔۔۔۔۔ (قرآن مقدس۔ ۔۔ص110-111)
Flag Counter